پاکستاناہم خبریں

پاکستان بھر میں سیلابی صورتحال بدستور سنگین، سندھ کے لیے "ہائی الرٹ” جاری — لاکھوں افراد متاثر، امدادی سرگرمیاں تیز

NDMA کے جاری کردہ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت سے آنے والے پانی کے ریلے سندھ میں داخل ہو چکے ہیں، اور "سپر فلڈ" کی شدت آئندہ چند روز میں مزید بڑھ سکتی ہے۔

اسلام آباد / لاہور / کراچی:
پاکستان میں جاری شدید سیلابی صورتحال نے ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے مطابق پنجاب کے بعد سندھ کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے، اور صوبے کے متعدد اضلاع کے لیے "ہائی الرٹ” جاری کر دیا گیا ہے۔ سیلابی ریلے مسلسل نچلے علاقوں کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور "سپر فلڈ” کے گدو بیراج تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو سات ستمبر تک متوقع ہے۔


سیلابی پانی سندھ میں داخل — گدو بیراج خطرے کی زد میں

NDMA کے جاری کردہ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت سے آنے والے پانی کے ریلے سندھ میں داخل ہو چکے ہیں، اور "سپر فلڈ” کی شدت آئندہ چند روز میں مزید بڑھ سکتی ہے۔
متاثرہ اضلاع میں:

  • ٹھٹہ

  • بدین

  • سجاول

  • دادو

  • لاڑکانہ

  • جیکب آباد

شامل ہیں، جہاں ریلیف کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں اور شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔


پنجاب میں تباہی — 46 ہلاکتیں، 39 لاکھ متاثر

پنجاب میں شدید بارشوں، دریائی طغیانی، اور زمینی کٹاؤ کے باعث تباہی کی نئی لہر سامنے آئی ہے۔ حکام کے مطابق:

  • 46 افراد جاں بحق

  • 39 لاکھ سے زائد متاثر

  • 18 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں

متاثرہ علاقوں میں قصور، حافظ آباد، لیہ، راجن پور، اور مظفر گڑھ شامل ہیں، جہاں نہ صرف دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں بلکہ شہری انفراسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوا ہے۔

ایک اہم پیش رفت میں لاہور کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بھی شدید بارشوں اور نکاسیٔ آب کے ناقص انتظامات کے باعث زیرِ آب آ چکی ہے، جہاں مکینوں کو کشتیوں کے ذریعے نکالا گیا۔


مون سون بارشیں اور بھارتی پانی — بحران میں اضافہ

ماہرین اور محکمہ موسمیات کے مطابق سیلاب کی شدت میں اضافے کی دو بڑی وجوہات ہیں:

  1. بھارت کی جانب سے دریاؤں میں چھوڑا گیا پانی

  2. مون سون کی نئی بارشوں کا سلسلہ

بھارت کی جانب سے پانی کی بروقت اطلاع نہ دیے جانے پر حکومتِ پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حکام کے مطابق بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر بین الاقوامی سطح پر سفارتی طور پر بات کی جائے گی۔


بین الاقوامی امداد — برطانیہ کی مالی معاونت میں اضافہ

بین الاقوامی برادری نے بھی پاکستان کی مدد کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ برطانیہ نے سندھ میں ایمرجنسی ریلیف کے لیے اپنی مالی امداد میں 45 کروڑ روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔
دیگر امدادی ادارے جیسے:

  • ریڈ کراس

  • یو این ایچ سی آر

  • ڈبلیو ایف پی

  • اسلامک ریلیف

بھی میدانِ عمل میں آ چکے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں خوراک، پناہ، طبی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں۔


ریلیف سرگرمیاں — فوج، ریسکیو اور مقامی ادارے متحرک

متاثرہ اضلاع میں:

  • فوج اور رینجرز کی ٹیمیں تعینات

  • ریسکیو 1122 نے سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا

  • ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور این ڈی ایم اے کی نگرانی میں امدادی سرگرمیاں جاری

عوامی رضاکار اور فلاحی تنظیمیں بھی امدادی مہمات میں شریک ہیں، جبکہ عارضی ریلیف کیمپس میں متاثرین کو کھانے، ادویات اور پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔


آنے والے دنوں میں کیا خدشات ہیں؟

  • مزید بارشوں کا امکان: محکمہ موسمیات نے آئندہ 72 گھنٹوں کے دوران مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جو صورتحال کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔

  • دریاؤں میں طغیانی: سندھ میں دریائے سندھ اور اس کے معاون ندی نالوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو رہی ہے۔

  • زرعی نقصان: لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جس سے خوراک کی قلت اور معاشی مسائل کا اندیشہ ہے۔


حکومتی اپیل اور اقدامات

وزیراعظم شہباز شریف نے:

  • وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت دی

  • متاثرین کے لیے خصوصی فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا

  • سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے جامع پالیسی بنانے کا عندیہ دیا

عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ:

  • افواہوں سے گریز کریں

  • ریسکیو اداروں سے تعاون کریں

  • ریلیف کے لیے عطیات اور رضاکارانہ خدمات پیش کریں


زمینی حقائق

  • بچوں، خواتین، اور بزرگوں کو کشتیوں کے ذریعے نکالا جا رہا ہے

  • ریلیف کیمپوں میں بنیادی سہولیات کی شدید کمی

  • متاثرہ علاقوں میں بجلی، پانی اور انٹرنیٹ سروسز معطل


بحران کے درمیان عزم و ہمدردی کی ضرورت

پاکستان کو درپیش یہ قدرتی آفت نہ صرف ایک ماحولیاتی چیلنج ہے بلکہ ایک انسانی بحران بھی ہے، جس کے لیے قومی یکجہتی، مؤثر حکمت عملی، اور عالمی تعاون ناگزیر ہے۔

ریلیف سرگرمیوں میں تیزی، شفافیت اور دیرپا بحالی کے منصوبے ہی اس آزمائش سے نکلنے کا راستہ بن سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button