مشرق وسطیٰ

قطر پر اسرائیلی حملہ: امریکی اتحادی تحفظات میں، خلیجی قیادت تحفظاتی معاہدوں پر نظرِ ثانی کی جانب مائل

"اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نہ صرف یرغمالیوں کے لیے کسی بھی امید کو مار ڈالا ہے بلکہ امن کے کسی بھی موقع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔"

دوحہ / واشنگٹن / تل ابیب – ایک ایسے وقت میں جب قطر غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری خونریز تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کا کلیدی کردار ادا کر رہا تھا، اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں قطری دارالحکومت دوحہ میں حماس کے پانچ ارکان اور ایک قطری سکیورٹی اہلکار کی ہلاکت نے خلیج کے عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

یہ حملہ ایسے وقت پر ہوا جب قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی خود حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیا سے مذاکرات میں مصروف تھے، جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے امریکی حمایت یافتہ معاہدے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا۔


امریکی سیکیورٹی اتحاد کی حقیقت پر سوالات

قطر ایک دیرینہ امریکی اتحادی ہے۔ صرف چند ماہ قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ کا دورہ کیا، جہاں انہیں بھرپور پروٹوکول دیا گیا، اربوں ڈالر کے دفاعی و معاشی معاہدوں پر دستخط ہوئے، اور صدارتی طیارے کی خریداری پر بات چیت کی گئی۔

اس کے باوجود، اسرائیل کے حالیہ حملے میں قطر کو نہ تو امریکہ کی جانب سے پیشگی اطلاع دی گئی، نہ ہی کوئی دفاعی مدد فراہم کی گئی۔ یہ واقعہ صرف قطر تک محدود نہیں، بلکہ خلیجی ریاستوں میں بھی گہری تشویش کی لہر دوڑا گیا ہے کہ کیا امریکی شراکت داری واقعی ان کی سلامتی کی ضامن ہے؟


قطری وزیر اعظم کا شدید ردعمل: "ریاستی دہشتگردی”

بدھ کے روز CNN کو دیے گئے انٹرویو میں، قطری وزیر اعظم نے اسرائیلی حملے کو کھلے الفاظ میں "ریاستی دہشتگردی” قرار دیا۔ انہوں نے کہا:

"اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نہ صرف یرغمالیوں کے لیے کسی بھی امید کو مار ڈالا ہے بلکہ امن کے کسی بھی موقع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔”

ان کے اس بیان کو قطر کے عموماً متوازن اور محتاط سفارتی بیانیے سے ایک نمایاں انحراف قرار دیا جا رہا ہے۔


العُدید امریکی بیس پر حملہ: پہلا اشارہ نظرانداز؟

جون 2025 میں جب ایران نے قطر میں امریکی العُدید ایئربیس کو نشانہ بنایا تھا، اس وقت بھی واشنگٹن کی طرف سے قطر کو خاطر خواہ تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ اگرچہ دوحہ نے ایران کے اقدام کی شدید مذمت کی، مگر اس کے سفارتی اور دفاعی نتائج مبہم رہے۔

مبصرین کے مطابق، اس وقت قطر نے جس خاموشی سے اس واقعے کو ہضم کیا، وہ آج کے شدید ردعمل کے بالکل برعکس ہے — جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اعتماد کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔


خلیجی ممالک میں عدم تحفظ کا بڑھتا احساس

بین الاقوامی ادارے کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ایچ اے ہیلیر کے مطابق:

"خلیجی اقوام اب شاید یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر امریکہ ان کے سب سے قریبی اتحادی کو اسرائیلی حملے سے نہیں بچا سکا، تو مستقبل میں وہ خود کس پر انحصار کریں؟”

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب یہ ممالک ممکنہ طور پر اپنا خود مختار سیکیورٹی فریم ورک بنانے کی کوشش کریں گے، بجائے اس کے کہ صرف ایک عالمی طاقت پر مکمل انحصار کریں۔


ثالثی کردار پر ضرب: امن کی کوششیں غیر یقینی

اسرائیل کے حملے کے بعد یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ قطر کی ثالثی کی کوششیں شدید متاثر ہو سکتی ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو حسن الاحسن کے مطابق:

"یہ وہ خطرہ ہے جسے خطے کے اکثر ممالک ثالثی کے بدلے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اگر آپ ثالث کا کردار ادا کر رہے ہوں اور پھر بھی حملے کی زد میں آئیں، تو یہ پیغام بڑا خطرناک ہے۔”

یہ صورتحال دیگر ثالث ممالک، جیسے مصر، عمان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لیے بھی ایک وارننگ ہے، جو مختلف علاقائی تنازعات میں ثالثی کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔


امریکہ – اسرائیل تعلقات اور خلیجی شراکت داری کی حقیقت

اسرائیل کی حالیہ جارحیت، اور امریکہ کی خاموشی، نے خطے میں ایک نئی سفارتی بحث کو جنم دیا ہے:
کیا امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط حمایت خلیجی اتحادیوں کے تحفظ کی قیمت پر ہو رہی ہے؟

ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بیانات، معاہدے اور وعدے تو بہت کیے گئے، لیکن جب عمل کا وقت آیا، تو قطر جیسے اتحادی کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔


نتیجہ: اعتماد کی بنیادیں متزلزل

قطر نے فوری طور پر غزہ میں ثالثی کا عمل ترک نہیں کیا، لیکن حالات ایسے ہیں کہ یہ ثالثی اب نازک توازن پر کھڑی ہے۔ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے حکام اب ممکنہ طور پر نئی دفاعی شراکت داریوں، متبادل سیکیورٹی منصوبوں اور خود انحصاری کی طرف رجوع کریں گے۔

اسرائیلی حملے کا پیغام صرف قطر تک محدود نہیں — بلکہ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ خطے کی طاقتوں کو اپنی سیکیورٹی کے لیے امریکی فوجی اڈوں اور سیاسی وعدوں سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button