
آزاد کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن ……..حیدر جاوید سید
وہ یہ مختلف ریاستی محکموں نے من پسند پروپیگنڈے کیلئے ذہنی و فکری معذوروں کی جو نئی کھیپ پال رکھی ہے ( نئی اس لئے کہا ہے پرانے سارے لشکر بمعہ ففتھ جنریشن وار مجاہدین کے عمران خان کے ساتھ جا چکے )
پاکستان کے زیرانتظام آزاد جموں کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر لاک ڈاون کا یہ سطور لکھتے وقت چوتھا دن ہے غیر معینہ لاک ڈاون 29 ستمبر سے شروع ہوا تھا لاک ڈاون کا تیسرا دن بدھ یکم اکتوبر آزاد کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن کے طور سیاست اور خطے کی تاریخ میں نقش ہوگیا اس دن 6 شہری اور 3 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور لگ بھگ 200 افراد زخمی ان زخمیوں میں کچھ کی حالت انتہائی تشویشناک ہے
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ آزاد کشمیر میں ” نوبت بہ ایں رسد ” تک معاملہ ریاست کے حکمران اتحاد کے طرز عمل سے پہنچا جعلی سائفر انڈین فنڈنگ اور اس طرح کے دوسرے بیہودہ الزامات کی جگالی کی بجائے جس سنجیدگی کے مظاہرے کی ضرورت تھی بظاہر آزاد کشمیر کی حکمران سیاسی قیادت اس سے محروم دیکھائی دیتی ہے ” سونے پہ سہاگہ ” خود کو چھ ساڑھے چھ دہائیوں تک کشمیریوں کے سواد اعظم کے طور پر پیش کرنے والی مسلم کانفرنس کا جارحانہ طرز عمل رہا ضلع مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے مسلم کانفرنس کے مرکزی رہنما راجہ ثاقب مجید جوکہ مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق کے قریبی عزیز ہیں نے عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے لاک ڈاون کے اعلان کے بعد 29 ستمبر کو امن مارچ کا اعلان کیا
اس دن 29 ستمبر کو وہ ایک مختصر یا بقول ان کے تاریخی امن مارچ کے ہمراہ مظفر آباد میں پولیس اور رینجرز کی سیکورٹی میں داخل ہوئے جہاں ان کے جذباتی حامیوں کی فائرنگ سے عوامی ایکشن کمیٹی کا ایک کارکن جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے امن مارچ والوں کو موقف ہے پہلے ہم پر پتھراو اور فائرنگ کی گئی لیکن موقع کی دستیاب ویڈیوز ان کے دعوے کی نفی کرتی ہیں
اس وقت جب یہ سطور رقم کررہا ہوں آج پہلا ( تحریک کا چوتھا ) دن ہے جب پاکستانی اخبارات نے آزاد کشمیر میں گزشتہ روز ہوئے خون خرابے کی خبر دی ہے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات کو اسی دن کا انتظار تھا ؟
ذرائع ابلاغ گزشتہ ہفتہ دس دن میں آزاد کشمیر کی صورتحال سے چشم پوشی کیوں برتی ؟
ہماری دانست میں پاکستان کی صحافتی دانش کو ان دو سوالات پر ضرور غور کرنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی کہ 27 ستمبر سے یکم اکتوبر تک بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ لداخ و کارگل کی ابتر صورتحال پر زقندیں بھرنے والوں نے آزاد کشمیر کی صورتحال کو نظر انداز کیوں کیا
ستم فقط یہیں نہیں اس سے بڑھ کر ہے وہ یہ مختلف ریاستی محکموں نے من پسند پروپیگنڈے کیلئے ذہنی و فکری معذوروں کی جو نئی کھیپ پال رکھی ہے ( نئی اس لئے کہا ہے پرانے سارے لشکر بمعہ ففتھ جنریشن وار مجاہدین کے عمران خان کے ساتھ جا چکے ) اس کھیپ نے آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف جو غلیظ پروپیگنڈہ کیا سنگین غداری کے الزامات لگائے اور ننگی گالیاں دیں وہ کیا ریاستی پالیسی کا حصہ تھیں؟
ہمارے بعض پنجابی دوستوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ مسلہ کہیں کا ہو الزام پنجاب اور پنجابیوں پر لگتا ہے ان سے دست بدستہ درخواست ہے کہ وہ ذرا سوشل میڈیا کے ان سینکڑوں اکاونٹس کا جائزہ لیں جن پر پچھلے پندرہ دن سے خصوصی طور پر آزاد کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی اور لوگوں کو گالیاں دی جارہی ہیں تاکہ انہیں جواب آں غزل کی وجہ سمجھ میں آئے ان مخصوص اکاونٹس سے دشنام طرازی کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ ہم یعنی پنجاب پال رہا ہے کون کسے پال رہا ہے اس پہ ان سطور میں جواب عرض کریں تو نہ صرف تلخی پیدا ہوگی بلکہ ہم بھی انہی ذہنی معذوروں کی سطح پہ جا کھڑے ہوں گے جو دس دس بارہ بارہ ہزار روپے کی خاطر جھوٹ بوتے کاٹتے اور کھاتے ہیں ہمزاد فقیر راحموں کے بقول جنہیں ففتھ جنریشن وار مجاہدین والا تجربہ نہیں سمجھا سکا انہیں اب صرف حضرت عزرائیلؑ ہی سمجھا سکتے ہیں
آزاد کشمیر میں 29 ستمبر سے غیر معینہ مدت کے لاک ڈاون کے اعلان کے بعد مظفر آباد میں دو وفاقی وزرا امیر مقام اور طارق فضل چوہدری نے ریاستی وزرا کے ہمراہ عوامی ایکشن کمیٹی سے تقریباً 13 گھنٹوں طویل مذاکراتی نشست سجائی تھی بدقسمتی سے ان مذاکرات کے اختتام پر حکومتی کمیٹی میں شامل پاکستانی وزرا نے میڈیا سے جو گفتگو کی وہ سطحی تھی
مثلاً آج 2 اکتوبر کے اخبارات میں اس مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری کا بیان شائع ہوا ہے وہ کہتے ہیں ” 90 فیصد مطالبات تسلیم کرلئے تھے آئینی ترمیم والے 2 مطالبات پر ڈیڈ لاک ہے تشدد کا راستہ قبول نہیں شرپسندوں نے بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے ” سوال یہ ہے کہ مظفرآباد میں مذاکرات کے اختتام پر وہ کچھ اور کہہ رہے تھے تب ان کا کہنا تھا ایکشن کمیٹی نظام کی بساط لپیٹنا چاہتی ہے اچھاچلیں 90 فیصد مطالبات منظور کرلئے تھے تو نوٹیفکیشن کہاں ہے ؟ کیوں مذاکرات کے اگلے دور کیلئے وقت اور مقام کا اعلان نہیں کیا گیا تھا
نیز یہ کہ کیوں ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کا عمل مکمل ہونے تک تحریک کے التوا کی درخواست نہیں کی گئی ۔ کی گئی تھی تو وہ تحریر کہاں ہے ؟ یاد رہے مظفر آباد میں وفاقی اور ریاستی وزرا سے مذاکرات کے دوران ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران تواتر کے ساتھ یہ پوچھتے رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مداخلت پر ماضی میں جن مطالبات کی منظوری کا اعلان کیا گیا ان کا نوٹیفکیشن کہاں ہے ؟
بہر حال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مختلف الخیال لوگوں کا اجماع ہے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ہمدرد اور بعض علاقوں کے فعال سیاسی و سماجی کارکن ہیں تاجر ہیں کسان مزدور طلبا و طالبات اور دیگر طبقات بھی یعنی دائیں بازو کے لوگ بھی ہیں بائیں بازو کے بھی خودمختار کشمیر کے حامی بھی ہیں تو الحاق پاکستان کے حامی بھی
اب بلا تفریق سب کو بھارت نواز پاکستان دشمن یا احسان فراموش قرار دینا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ افسوس کہ اس غلیظ پروپیگنڈے کی ابتدا ریاست کے حکمران اتحاد کے رہنماوں نے کی اور بدزبانی کی ابتدا راجہ فاروق حیدر جیسے سیاستدان نے جو ماضی میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے ستم بالائے ستم یہ کہ راجہ فاروق حیدر نے ریاستی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہوکر ایکشن کمیٹی کے حامیوں کیلئے جو الفاظ استعمال کیئے وہ یہاں لکھے نہیں جاسکتے
ایک راجہ فاروق حیدر کیا مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے صاحبزادے اور مسلم کانفرنس مالک و صدر سردار عتیق اور ان کے حامیوں کو بھی اپنی زبانوں پر قابو نہیں ایک سے بڑھ کر ایک تحفہ ہے
جہاں تک عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے بعض پاکستانی محکموں کے آزاد کشمیر میں تعینات چند افسروں پر تنقید کا معاملہ ہے تو اس پر بھی جذباتی ہونے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو دیکھنا سمجھنا ہوگا
حرف آخر یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق کا کہنا ہے کہ مذاکرات ناکام نہیں تعطل کا شکار ہیں ہم چاہتے ہیں جہاں سے عمل ٹوٹا وہاں سے بات چیت شروع ہو انہوں نے لانگ مارچ روکنے کی بھی اپیل کی افسوس کہ یہ بات وہ یکم اکتوبر کے خونریز ہنگاموں سے قبل نہیں کہہ پائے اجازت نہیں تھی یا کچھ اور یہ وہی بتاسکتے ہیں
بہرطور اصلاح احوال کیلئے تحمل اور بردباری کے ساتھ سب کو سوچنا ہوگا البتہ ایکشن کمیٹی کی یہ بات بجا طور پر مناسب بلکہ سوفیصد درست ہے کہ اگر ریاستی حکومت یا وفاق پاکستان مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے مواصلاتی پابندیاں ختم کرنا ہوں یعنی پی ٹی سی ایل فونز اور نیٹ کے ساتھ موبائل فون سروس کی بحالی جو 29 ستمبر سے تادم تحریر بند ہیں
پسِ نوشت
کالم لکھ کر دفتر بھجوا چکا تھا کہ آزاد کشمیر کے حوالے ایک حوصلہ خبر موصول ہوئی
اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر آزاد کشمیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیلئے نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے کمیٹی میں مذاکرات کے پہلے راونڈ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وفاقی وزرا امیر مقام اور طارق فضل چوہدری کے علاوہ قمر الزمان کائرہ، رانا ثناء اللہ، سردار یوسف احسن اقبال اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے
ذرائع کے مطابق نوتشکیل شدہ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پہنچ چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کمیٹی کتنی بااختیار ہے اور مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بٹھانے کیلئے کیا حکمت عملی اپناتی ہے

