کالمزناصف اعوان

سماج کی سمت کدھر ؟………ناصف اعوان

اب جب ہم بجلی بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہیں تو کیوں نہیں ایسا کیا جاتا۔ کیوں آئی پی پی ایز کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں

مورخہ دو اکتوبر کے ایک معاصر کے صفحہ آخر پر دو کالمی خبر چھپی ہے کہ لاہور کے علاقہ اسلام پورہ میں معمولی تلخ کلامی اور عدم ادائیگی پر بجلی کا میٹر اتارنےپر باپ بیٹا کے درمیان لڑائی جھگڑے کے دوران ناخلف بیٹے نے اپنے باپ کو دھکا دیا جس سے اٹھاون سالہ عبد المجید منہ کے بّل گرا اور بے ہوش ہو گیا جس کو ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا ۔ پولیس نے اطلاع ملنے پر بروقت کارروائی کرکے ملزم کو گرفتار کر لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ۔
بظاہر معمولی مگر حقیقت میں اس غیر معمولی واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارا سماج بکھر چکا ہے وہ اقدار جن کو ہم سینے سے لگائے ہوئے تھے اب دھیرے دھیرے معدوم ہوتی جا رہی ہیں برداشت احترام اور رواداری کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے بلکہ ڈال دیا گیا ہے۔ذہنوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بغض اور کینہ تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں لہذا اب باپ بیٹا کو نہیں پہچان رہا۔
صد افسوس کہ دھکا دینے والے بد بخت بیٹے نے اپنے والد کو میٹر کاٹے جانے کا زمہ دار ٹھہرا کر اس کی جان ہی لے لی۔ اس کا باپ اگر بجلی کا استعمال زیادہ بھی کرتا تھا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے وہ اس کا باپ تھا اس نے کتنے دکھ جھیلے ہوں گے کتنی مشقت کی ہو گی اور کس کس کو فخر کے ساتھ اس کے بارے میں بتاتا ہو گا وہ پر گز یہ نہیں چاہتا ہو گا کہ اس کا بیٹا پسینے میں شرابور ہو مگر وہ سب کچھ نظر انداز کر کے اپنے والد کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اس نے یہ نہیں چاہا ہو گا کہ اس کا بیٹا پسینے میں نہا جائے ؟
یہاں ہم ایک دوسرا پہلو بھی دیکھتے ہیں کہ کیا واپڈا سے کوئی باز پرس ہو گی کہ جو میٹر اتارنے کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے وہ کس قانون کے تحت ایسا کرتا ہے میٹر تو صارف کی ملکیت ہو تا ہے اس کو کسی بھی صورت کوئی واپڈا اہلکار اپنے ساتھ لے جانے کا مجاز نہیں مگر یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے کوئی قانون نہیں کوئی ضابطہ نہیں جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اس کے سماجی ومعاشی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ؟
اب جب ہم بجلی بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہیں تو کیوں نہیں ایسا کیا جاتا۔ کیوں آئی پی پی ایز کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں ۔ انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ ان کی تجاویز کو ہمارا محکمہ پانی و بجلی من وعن تسلیم کرتا ہے۔ جس سے غریب آدمی بے حد متاثر ہوتا ہے۔ وہ بل ادا کرنے کے لئےبسا اوقات اپنی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ہم نے بہت سی ایسی خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ بجلی کنکشن کٹنے کے خوف سے اپنا زیور تک بیچ ڈالتی ہیں ۔ محکمہ کہتا ہے کہ اگر لوگ بجلی چوری نہ کریں تو وہ سستی مہیا کی جا سکتی ہے۔ جناب عالی! چوری پکڑنا آپ کا کام ہے بڑی بڑی ملیں فیکٹریاں کارخانے اور باثر افراد کے گھروں میں چانن آپ کے ہی دم سے ہے۔ روکیے انہیں پکڑتے کیوں نہیں مگر غریب لوگ آپ کی گرفت میں آسانی سے آجاتے ہیں لہذا ساری کثر ان سے پوری کی جاتی ہے ۔ ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ ریاست ہر شہری کو پانی بجلی مفت فراہم کرے علاوہ ازیں تعلیم صحت بھی اس کی زمہ داری ہے مگر وہ اس سے کنی کتراتی ہے لہذا اس وجہ سے بھی غریبوں کی جانیں جا رہی ہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اہل اقتدار کو اپنی حکمرانی کی فکر ہے کہ اسے کیسے طول دینا ہے کیسے اس کی حفاظت کرنی ہے عوام جائیں بھاڑ میں کوئی سسکے یا تڑپے انہیں کیا ؟
بہر حال جب بجلی کا بل کسی گھر میں آتا ہے تو وہ کانپ کانپ جاتا ہے اس کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ بل ادا کر سکے مگر اسے ادا کرنا لازم ہوتا ہے بصورت دیگر کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے اور کاٹنے والا بندہ میٹر بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اب جب کوئی براہ راست بجلی حاصل کرتا ہے تو اس خلاف پرچہ کٹوا دیا جاتا ہے یہ ہے ہمارے محکمہ برقیات کی کارکردگی مگر حکومت کہاں ہے وہ ایسے قوانین کیوں نہیں بناتی کہ کسی بیٹے کو اپنے باپ کو دھکا نہ دینا پڑے ۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اگر کوئی محکمہ عوام کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے تو گھروں میں بیٹھے لوگ باہم دست وگریباں ہونے لگیں۔ سماجی مسائل کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں لوگوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے رشتوں کی قدر و پہچان کو بہر صورت پیش نظر رکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ طے ہے کہ ہم ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی بسر نہیں کر سکتے ہمارا نظام حیات ایک کڑی کی مانند ہے جس سے علیحدہ ہونا ممکن ہی نہیں لہذا وقت کی اونچ نیچ کا مقابلہ دانائی حوصلہ اور بردباری سے کرنا چاہیے اب بد بخت بیٹے نے جو کچھ اپنے باپ کے ساتھ کیا ‘ کیا اس کے عمل سے اس کا میٹر واپس آگیا یا اس کا بل معاف ہو گیا ہوگا نہیں اگر ہو بھی گیا ہو گا تو صرف ایک بار کے لئے ہمیشہ کے لئے تو نہیں ۔اس لئے اس کو سوچنا چاہیے تھا طیش میں نہیں آنا چاہیے تھا پھر اپنے والد کے ساتھ ‘ اسے کیوں یاد نہیں رہا کہ وہ اس کا باپ ہے جس نے اس کو دیکھ دیکھ کر جینا چاہا اپنا سہارا بنانے کا خواب دیکھا مگر اسی نے ہی اس کو زندگی سے محروم کر دیا۔ ہو سکتا ہے اس کا ارادہ ایسا نہ ہو کہ وہ جان سے چلا جائے مگر اسے یہ خیال رکھنا چاہیے تھا کہ پچھلے پہر کی سانسیں بڑی نازک ہوتی ہیں جو دھکا کیا ایک دل آزار جملے سے بھی رُک جاتی ہیں ۔
خیر جو ہوگیا سو ہو گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پولیس محکمہ برقیات سے بھی پوچھ گچھ کرتی ہے یا نہیں کیونکہ بات میٹر کے کٹ جانے اور اس کی عدم موجودگی سے ہی بگڑی اگر ایسا نہ ہوتا تو صورت حال ہی پیدا نہ ہوتی ۔
بہر کیف عام آدمی کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں اس کے ساتھ ساتھ خود حکومت توانائی کے ذرائع تلاش کرے ۔ اب یہ نظام نہیں چلنے والا کیونکہ لوگ بہت تکلیف میں ہیں جس سے سماجیات بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ رہی ہے اور جب پورے ڈھانچے میں کوئی دراڑ آتی ہے تو اس کو رفو نہیں کیا جا سکتا اسے رفو کر بھی لیا جائے تو وہ دکھائی ضرور دے جاتی ہے جو یہ احساس دلاتی ہے کہ کسی نے کبھی کوئی دکھ دیا تھا لہذا سماجی مسائل کو ترجیحاً حل کرنے کی کوشش کی جائے مگر سماج کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو مزید بکھرنے سے بچائے کیونکہ وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے وہ کبھی نہیں تھمتا !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button