کالمزپیر مشتاق رضوی

حماس کی فتح اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام………پیر مشتاق رضوی

۔زمینی حملے خاص طور پر غزہ شہر میں شدید تباہی اور بے گھر ہونے کا باعث بنے، لاکھوں فلسطینیوں کو پناہ کی تلاش پر مجبور کیا۔یہ حملے انسانی بحران اور تباہی کا باعث بنے جس پر عالمی برادری نے بارہا گہری تشویش کا اظہار کیا

7۔اکتوبر 2023ء سے 7۔اکتوبر 2025ء تک غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی اسرائیل کی بد ترین بربریت اور کھلی جارحیت بالآخر اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے پیش کردہ مجوزہ جنگ بندی کے معاھدہ پر اسرائیل اور حماس میں مزکرات شروع ہو چکے ہیں اور اس سلسلے مزید پیش رفت جاری ہے جو مستقبل میں مشرق وسطی’ میں پائیدار امن کے لئے خوش آئند ہو سکتی ہے غزہ میں دو سال سے جاری جنگ میں فلسطینی شہداء کی تعداد تقریباً 83,740 سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد لگ بھگ 170,000 سے زیادہ ہے۔ – 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک تقریباً 66 ہزار فلسطینی شہید اور 168 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔- مارچ 2025ء کے بعد سے 13,486 شہید اور 57,389 زخمی ہوئے ہیں- بھوک اور انسانی بحران کی وجہ سے مزید 450 افراد، جن میں بچے بھی شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔یہ تعداد رجسٹرڈ کیسز پر مبنی ہے، اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔دو سال کی اسرائیلی جارحیت میں غزہ پر مسلسل فضائی، زمینی اور گولہ باری کے حملے ہوئے، جن میں گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا- مارچ 2025ء میں صرف چند دنوں میں 591 سے زائد فلسطینی، خاص طور پر خواتین اور بچے، ہلاک ہوئے۔- اکتوبر 2023ءسے اب تک اسرائیلی حملوں میں تقریباً 60,000 سے زائد فلسطینی شہید اور پچاس ہزار سے زائد زخمی ہوئے- اسرائیل نے غزہ پر مکمل محاصرہ عائد کر رکھا ہے، جس سے خوراک، پانی اور دوا کی شدید قلت پیدا ہوئی۔زمینی حملے خاص طور پر غزہ شہر میں شدید تباہی اور بے گھر ہونے کا باعث بنے، لاکھوں فلسطینیوں کو پناہ کی تلاش پر مجبور کیا۔یہ حملے انسانی بحران اور تباہی کا باعث بنے جس پر عالمی برادری نے بارہا گہری تشویش کا اظہار کیا ۔
لیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ غزہ میں لاکھوں معصوم فلسطینوں کے قتل عام اور اس نسل کشی کو رکوانے میں مکمل طور بے بس دکھائی دی اور ناکام رہی ،گذشتہ دو سال کے دوران عالمی دھشت گرد صیہونی ریاست اسرائیل نے غزہ پر تقریباً 40,000 فضائی اور زمینی حملے کیے ہیں۔اسرائیلی فضائی حملوں میں 70,000 ٹن سے زیادہ گولہ بارود گرایا گیا، جو دوسری جنگ عظیم کے بڑے حملوں سے بھی زیادہ تھا۔ یہ حملے گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بناتے رہے، جس سے انسانی نقصان بہت بڑا ہوا ہے: اسرائیل اپنی بھاری فوجی طاقت کے باوجود حماس کو قابو نہ پا سکاکیونکہ حماس نے غزہ میں ایک وسیع اور پیچیدہ زیر زمین سرنگوں کا جال بچھایا ہے جو فورسز کی نقل و حرکت اور حملے کو مشکل بناتا ہے۔یہ سرنگیں نا صرف حملوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں بلکہ حماس کے جنگجوؤں کی حفاظت اور منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ حماس کی فوجی قوت چھوٹے، متحرک جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو شہری علاقوں میں چھپ کر گوریلا وارفیئر کرتے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا صرف کچھ حصہ کنٹرول کیا، باقی پر حماس کا کنٹرول برقرار ہے، اور وہ فور کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہے۔ انسانی امداد کی بلاکنگ نے غزہ میں بحران بڑھا دیا مگر مزاحمت پر اثر نہ ڈالا۔ یقینا یہ ایک پیچیدہ اور طویل المدت تنازعہ ہے جس طاقت کے علاوہ حکمت عملی اور زمینی حقائق بھی اہم ہیں غزہ میں جنگ بندی کے مستقبل کے حوالے سے تازہ صورتحال یہ ہے کہ 2025ء میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک اہم جنگ بندی معاہدہ ہوا، جس میں قیدیوں کی تبدیلی اور کچھ مدت کے لیے جنگ بندی شامل تھی۔ مگر مذاکرات ابھی بھی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، اور دونوں طرف سیاسی رکاوٹیں موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے وسیع سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے، جس سے دیرپا امن و سلامتی اور ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ مگر بنیادی مسئلہ اسرائیلی-فلسطینی تنازعے کے حل کے بغیر امن مشکل ہے۔حالیہ جنگ بندی ممکن ہے لیکن پائیدار امن کے لیے سیاسی عزم، علاقائی تعاون اور اعتماد سازی ضروری ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک مثبت پیشرفت ہوئی ہے حماس نے امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو بعض شرائط پر قبول کیا ہے، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی فلسطینی ٹیکنکریٹ حکومت کی ذمہ داری شامل ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ فوراً بمباری بند کرے تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے ابھی بھی سیاسی مسائل اور گہری اختلافات باقی ہیں، مگر یہ منصوبہ ایک اچھا آغاز ہو سکتا ہے اگر سب فریق مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے امن منصوبے کے اہم نکات کے مطابق فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اورتبادلہ کیاجائے گافلسطینیوں کی عارضی خودمختار ٹیکنکریٹ حکومت کا قیام، جو پورے امن عمل کو آگے بڑھائے گی . امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش کہ تمام فریق سیاسی مذاکرات کی میز پر آئیں گے علاقائی تعاون جیسے اردن اور مصر کی ثالثی، تاکہ مذاکرات میں مدد ملے گی یہ منصوبہ اس خطے میں پرامن حل کی جانب ایک اہم قدم ہے، لیکن کامیابی کے لیے تمام پارٹیوں کا تعاون اور اعتماد ضروری ہے: پاکستان جنگ بندی میں فعال کردارادا کررہاہے اور فلسطینیوں کے حق میں کھڑا ہے۔- پاکستان نے امریکی 20 نکاتی امن منصوبے میں تبدیلیوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اصل مسودے سے اختلافات ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور پائیدار امن کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔پاکستان نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور 1967ء کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا- وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ جنگ بندی کے قریب آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان فلسطینی قوم کے ساتھ ہمیشہ کھڑا ہے یعنی، پاکستان نے فلسطینی قوم کے ساتھ مکمل یکجہتی اور پائیدار امن کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کردار جاری رکھا ہے پاکستان امن فورس کے لیے ممکنہ طور پر اپنے فوجی غزہ بھیجنے پر غور کر رہا ہے، جس میں مسلمان ممالک کی مشترکہ امن فورس بنے گی۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ یہ فوجی امن فورس فلسطینی پولیس کی مدد کرے گی، خود غزہ میں تعینات نہیں ہوگی، اور اس کا اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہوگی۔پاکستان نے امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی اپنی پیش کردہ ترامیم کے ساتھ حمایت کی ہے مگر ادارہ جاتی اصلاحات اور فلسطینی حق خودارادیت پر اپنے اصولی موقف پر قائم ہے پاکستان نے صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر حماس کے جواب کا خیرمقدم کیا ہے اور اسرائیل سے فوری حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان فلسطینیوں کے حق خودارادیت پر مستحکم موقف رکھتا ہے اور 1967ء کی سرحدوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔ وزیر اعظم اور دفتر خارجہ نے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ : حماس نے صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو بڑی حد تک قبول کرلیا ہے اور کہا ہے کہ وہ غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو سونپ دے گی۔ حماس اپنا اسلحہ مستقبل کی قائم ہونے والی خودمختار فلسطینی ریاست کو منتقل کرنے پر تیار ہے، مگر اس پر مزید تفصیلی مذاکرات ہوں گے۔ حماس مستقبل میں سیاسی کردار میں تبدیلی کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے قومی اتفاق رائےاوراس سلسلے
بین الاقوامی تعاون ضروری ہوگا۔حماس نے کہا ہے کہ وہ اپنے اسلحے کو نیا فلسطینی ٹیکنکریٹ حکومت کے حوالے کرے گی تاکہ وہ امن عمل کو سپورٹ کرے۔ اس کے ساتھ حماس نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے اور امید کی ہے کہ فلسطینی قیدی بھی آزاد ہوں گے۔ حماس کا مستقبل امن اور سیاسی سمجھوتوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ حال ہی میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہے، مگر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اس کا مستقبل فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کے قومی احترام سے منسلک ہے، اور یہ علاقائی اور عالمی عوامل پر منحصر ہے۔
: حماس مستقبل میں سیاسی کردار میں تبدیلی کے لیے تیار لگتی ہے، پر امن ریاست اور قومی اتفاق رائے ضروری ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کا کنٹرول دینے اور اسلحہ منتقل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ حماس نے پچھلے دو سال کی جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں 7 اکتوبر 2023ء کو بڑے حملے کرکے اسرائیل کو ہلا کر اسے ہنگامی حالت میں مجبور کیا۔غزہ کی سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں جھڑپیں کیں اور سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں کو قیدی بنایا۔ 20 ہزار سے زیادہ مجاہدین اب بھی میدان جنگ میں متحرک ہیں، تقریباً 75% سرنگیں ابھی باقی ہیں۔ حماس نے عالمی اور عرب نوجوانوں کی حمایت حاصل کی اور امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے چند نکات قبول کیے اسرائیل کو بڑی تعداد میں قیدیوں کی رہائی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس نے اپنی مزاحمتی طاقت برقرار رکھی اور سیاسی میدان میں بھی اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ : اسرائیل اپنی بھاری فوجی طاقت کے باوجود حماس کو قابو نہ پا سکا یقینا” یہ ایک پیچیدہ اور طویل المدت تنازعہ ہے جس میں طاقت کے علاوہ حکمت عملی اور زمینی حقائق بھی اہم ہیں حالیہ جنگ بندی فلسطین کے لیے آزاد ریاست کی راہ تھوڑی آسان کر سکتی ہے کیونکہ: جنگ بندی سے غزہ میں انسانی بحران کم ہوگا اور عبوری حکومت کے قیام کا راستہ کھلے گا (ٹرمپ کے 21 نکاتی منصوبے کے مطابق)۔ اقوام متحدہ اور عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی فلسطینی حق خود ارادیت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، مکمل آزادی کے لیے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور 1967ء کی سرحدوں پر مبنی فلسطینی ریاست کی تسلیم ضروری ہے، جو ابھی چل رہی مذاکرات پر منحصر ہے۔
ہاں، دو سال کی جنگ میں حماس نے عسکری اور سیاسی دونوں لحاظ سے کچھ اہم کامیابیاں حاصل کیں:عسکری طور پر بڑے حملے کرکے اسرائیل کو حیران کر دیا اور اپنی مزاحمتی طاقت دکھائی۔
سیاسی طور پر عرب دنیا اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ بڑھائی، اور فلسطینی نیشن کے اہم کھلاڑی کے طور پر خود کو مضبوط کیا۔ اسرائیل کو قیدیوں کی رہائی جیسے مذاکرات میں بھی کامیابی ملی۔لیکن مکمل فتح کے لیے ابھی بھی بہت چیلنجز اور مذاکرات باقی ہیں؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button