پاکستاناہم خبریں

تحریکِ لبیک کے حالیہ مسلح مظاہرے: مقاصد، الزامات اور ملک میں پیدا شدہ انتشار

ٹی ایل پی کے مظاہرین کا حالیہ "غزہ مارچ" نامی احتجاج محض اظہارِ خیال نہیں بلکہ منظم، مسلح اور تشدد آمیز کارروائیوں کی شکل اختیار کر چکا ہے

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز-پاکستان ڈیسک

 ذرائع کیمطابق پاکستان میں تحریکِ لبیک (ٹی ایل پی) کے خلاف تازہ ترین ہنگاموں اور پرتشدد احتجاجات نے ملک کے امن و امان پر شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ حکومتی اور انتظامی ذرائع، پولیس افسران اور سیاسی حلقوں نے جو دعوے کیے ہیں اُن کے مطابق ٹی ایل پی کے مظاہرین کا حالیہ "غزہ مارچ” نامی احتجاج محض اظہارِ خیال نہیں بلکہ منظم، مسلح اور تشدد آمیز کارروائیوں کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے پیچھے مبینہ سیاسی و غیرملکی مفادات بھی کارفرما ہیں — تاہم ان دعووں کی آزادانہ تصدیق اس رپورٹ میں براہِ راست دستیاب ذرائع کے بغیر ممکن نہیں رہی۔

احتجاج کا مبینہ مقصد کیا تھا؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریکِ لبیک کے مظاہرین نے جو مطالبات اور نعروں کے نام پر روایتی طور پر احتجاج کیا، اس بار ان کا مادّی بھیانک پہلو زیادہ نمایاں تھا: سڑکیں بند کرنا، سرکاری اور نیم سرکاری املاک پر قبضہ، پولیس اہلکاروں اور افسران پر حملے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف تشدد۔ حکومتی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مظاہرے بظاہر "غزہ کے حق میں” ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے داخلی انتشار پیدا کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش تھے۔

ٹی ایل پی کے حامیوں کا بیانیہ عام طور پر فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی رہا ہے، مگر حکومت اور بعض مبصرین کا الزام ہے کہ "غزہ مارچ” کا اصل محرک داخلی سیاست، انتخابی فضا کی شکل بدلنا اور عوامی توجہ ہٹانا تھا — اور اس مقصد کے لیے نفرت انگیز اور ہنگامی اقدامات اختیار کیے گئے۔

حملوں کے نتائج اور نقصانات

 ذرائع کیمطابق پولیس کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق تحریکِ لبیک کے پرتشدد مظاہروں کے دوران پنجاب پولیس کے قریب ۱۰۰ افسران و اہلکار زخمی ہوئے ہیں (یہ تعداد آپ کی فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی ہے)۔ متعدد پولیس وین اور سرکاری گاڑیاں سنگین نقصان کا شکار ہوئیں جن کی مرمت و ازسرِ استعمال لاگت لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی متعدد سرکاری عمارات اور محکماتی دفاتر کو بھی نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو مالی ضرب لگی ہے اور شہری نقل و حمل و روزمرہ کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔

مزید برآں، متعدد مقامات پر سڑکیں بند کر دی گئیں، جس سے طبی ایمرجنسیز، اشیائے خوردونوش کی ترسیل اور عوامی خدمات معطل ہوئیں — یہ نتائج براہِ راست شہریوں کی روزمرہ زندگی میں مشکلات کا سبب بنے۔

تحریکِ لبیک کا موقف اور عوامی تاثر

ٹی ایل پی کی جانب سے رسمی طور پر دیے گئے بیانات (جس کی اصل عبارت یہاں موجود نہیں) میں ممکنہ طور پر احتجاج کو مذہبی جذبے اور فلسطینیوں کے حق میں یکجہتی کے طور پر پیش کیا جاتا ہوگا۔ تاہم شواہد اور حکومتی دعووں کے تناظر میں کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ تحریک کا بیانیہ فلسطین کے لیے ہمدردی پر مبنی ہے، مگر ان کے ذریعے شروع کی گئی تشدد آمیز کاروائیاں نہ صرف مقامی جان و مال کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اپنے ملک کے مسلمانوں کے مفاد میں بھی نہیں کیونکہ وہ امن کے مستقبل کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

کئی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ایسے اقدامات واقعی فلسطینی عوام کی خدمت ہیں یا پھر سیاسی طور پر منظم شدہ انتشار ہے جو اندرونی استحکام کو کھوکھلا کرتا ہے۔

ماہرین کا تجزیاتی نقطۂ نظر

 ذرائع کیمطابق سیاسی مبصرین اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذہبی نعروں کے اندر سیاسی تقاضے، انتخابی حکمتِ عملی یا بین الاقوامی مفادات چھپے ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق جب احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کے نتائج عام شہری، معیشت اور ریاستی نظام پر بھاری پڑتے ہیں، اور ایسی صورت حال میں حقیقی ہدف یا نمائندگی کا معاملہ سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

ایک تجزیہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب غیر ریاستی گروہ اپنی کاروائیوں میں مسلح انداز اختیار کرتے ہیں تو وہ آسانی سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کا فائدہ اکثر اُن قوتوں کو ہوتا ہے جو حالات کو مزید کشیدہ دیکھنا چاہتی ہیں۔

نتیجہ: امن و قانون کی بحالی اولین ترجیح

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی قیادت اور مذہبی رہنماء مل کر تحمل اور سمجھ بوجھ کے ساتھ صورتحال کنٹرول کریں۔ عوام سے بھی اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ احتجاجی حالات میں پرامن رہیں، افواہوں سے پرہیز کریں اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھائیں۔ اگرچہ اظہارِ رائے اور یکجہتی کے جذبات ہر شہری کا حق ہیں، مگر وہ عمل جو دوسرے شہریوں کی جان، مال یا بنیادی خدمات پر براہِ راست حملہ کرے، کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button