پاکستاناہم خبریں

پنجاب میں مذہبی جماعت کا مارچ منتشر، حالات معمول پر، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سروسز بحال

ضلعی انتظامیہ کے مطابق مظاہرین نے "ستھرا پنجاب پروجیکٹ" کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی، جس کے بعد ان کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔

عامر سہیل-پاکستان، وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

لاہور/اسلام آباد: پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مذہبی جماعت کے اسلام آباد کی جانب مارچ کو پولیس کی جانب سے منتشر کیے جانے کے بعد حالات رفتہ رفتہ معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ موٹرویز، جی ٹی روڈز، اور ٹرانسپورٹ سروسز کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہری زندگی میں بھی بہتری آ رہی ہے، تاہم بعض علاقوں میں اب بھی سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے۔


موٹرویز اور سڑکیں کھل گئیں، ٹریفک رواں دواں

نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) کے مطابق لاہور سے نکلنے والی تمام مرکزی شاہراہیں بشمول اسلام آباد، سیالکوٹ، اور عبدالحکیم موٹرویز ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پر بھی آمد و رفت بحال ہو چکی ہے۔ مریدکے میں سڑک پر موجود جلی ہوئی گاڑیاں ہٹا دی گئی ہیں اور سڑک کو مکمل طور پر کلئیر کر دیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق مظاہرین نے "ستھرا پنجاب پروجیکٹ” کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی، جس کے بعد ان کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔


لاہور اور راولپنڈی میں ٹرانسپورٹ سروسز بحال

پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے مطابق لاہور میں میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، سپیڈو بس اور الیکٹرو بس سروسز بحال کر دی گئی ہیں۔ یہ تمام سروسز گزشتہ جمعے سے معطل تھیں۔ راولپنڈی میں میٹرو بس سروس جزوی طور پر بحال کی گئی ہے، جبکہ دیگر پبلک ٹرانسپورٹ بھی بتدریج بحال ہو رہی ہے۔

لاہور سیف سٹی اتھارٹی کے مطابق شہر میں سمن آباد سے چوک یتیم خانہ تک ایک سڑک بند ہے، جبکہ دیگر تمام سڑکیں کھلی ہیں۔


پولیس آپریشن کے بعد امن، مگر سیکیورٹی سخت

پیر کی صبح پولیس نے ایک بھرپور آپریشن کے ذریعے مذہبی جماعت کے کارکنوں کو مریدکے کے مقام پر منتشر کر دیا تھا۔ اس آپریشن کو 30 گھنٹے سے زائد گزر چکے ہیں اور تب سے کسی بڑے احتجاج یا ہنگامہ آرائی کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

تاہم اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت جڑواں شہروں میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اب بھی تعینات ہے۔ اسلام آباد میں ریڈ زون کے بیشتر راستے بند ہیں، صرف مارگلہ روڈ کو کھلا رکھا گیا ہے۔ آئی جے پی روڈ، مری روڈ اور جناح سکوائر جیسے اہم مقامات پر کنٹینرز لگا کر ٹریفک معطل کی گئی ہے۔ راولپنڈی میں فیض آباد انٹرچینج بند ہے اور ٹریفک کو متبادل راستوں کی طرف موڑا جا رہا ہے۔


ہلاکتیں، گرفتاریاں، اور قانونی کارروائیاں

اب تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق پولیس آپریشن کے دوران پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک ایس ایچ او بھی شامل ہے۔ پولیس نے شیخوپورہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او شہزاد نواز کی ہلاکت کی ایف آئی آر مذہبی جماعت کے مرکزی قائدین کے خلاف درج کر لی ہے۔

ادھر لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں گرفتار 70 کارکنوں کو پیش کیا گیا ہے اور عدالت نے ان کا 11 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین نے ڈی ایس پی سمیت پانچ پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، جنہیں شدید زخم آئے۔

علاوہ ازیں جنوبی پنجاب کے شہر وہاڑی میں اسی جماعت سے منسلک سات مدارس کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔


سوشل میڈیا سیل پر کریک ڈاؤن

پولیس نے مذہبی جماعت کے سوشل میڈیا سیل پر بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ لاہور، قصور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، اور کامونکی سے 39 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر سوشل میڈیا پر ’انتشار‘ پھیلانے کا الزام ہے۔

پولیس کے مطابق مزید 87 افراد کے واٹس ایپ اور فیس بک اکاؤنٹس کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، جبکہ 200 سے زائد افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے جو مبینہ طور پر جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔


مہنگائی کا نیا بحران: ٹماٹر 800 روپے فی کلو

احتجاج اور سڑکوں کی بندش کے باعث اشیائے خور و نوش کی ترسیل بھی شدید متاثر ہوئی، جس کا براہِ راست اثر عام شہریوں پر پڑا۔ لاہور سمیت دیگر شہروں میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

لاہور میں ٹماٹر کی قیمت 800 روپے فی کلو تک جا پہنچی، جب کہ دیگر سبزیاں بھی مہنگی ہو گئیں۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سڑکیں کھلنے کے بعد یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔


حکومت اور مذہبی جماعت کی قیادت: خاموشی برقرار

پولیس کارروائی کے بعد مذہبی جماعت کی مرکزی قیادت منظر عام سے غائب ہے۔ نہ تو کسی لیڈر کی گرفتاری کی تصدیق ہوئی ہے، نہ ہی ان کی جانب سے کوئی باقاعدہ بیان سامنے آیا ہے۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے بھی کسی اعلیٰ سطحی بریفنگ یا پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا گیا، جس کے باعث عوام میں بے چینی برقرار ہے۔


نتیجہ: وقتی سکون یا طوفان سے پہلے کی خاموشی؟

اگرچہ موجودہ صورتحال نسبتاً پرامن دکھائی دے رہی ہے، لیکن سوشل میڈیا کریک ڈاؤن، مدارس کی بندش، اور پولیس کی کارروائیاں بتاتی ہیں کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے آئندہ کسی بھی ممکنہ ردعمل سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

معاشی اور سماجی طور پر بھی اس مارچ اور اس کے بعد کے حالات نے ملک میں عدم استحکام کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے، جس سے نہ صرف کاروبار بلکہ عام شہری کی روزمرہ زندگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button