
پاکستان میں بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی شرح تشویشناک حد تک کم: وزیرِ صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ
ہمارے بہت سے پارلیمنٹیرینز یہ نہیں جانتے کہ فارمولہ دودھ کیا نقصان پہنچا سکتا ہے، یا ماں کا دودھ بچوں کے لیے کس قدر ناگزیر ہے
ڈاکٹر اصغر واہلہ-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اسلام آباد: پاکستان میں چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں سے صرف 47 فیصد مکمل طور پر ماں کا دودھ پیتے ہیں، جو نہ صرف صحت عامہ کے حوالے سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے بلکہ بچوں کی اموات اور غذائی قلت کا بھی ایک اہم سبب ہے۔ اس افسوسناک صورتِ حال کا انکشاف وزیرِ مملکت برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے ہیلتھ سروسز اکیڈمی (ایچ ایس اے) اسلام آباد میں صحافیوں کے لیے منعقدہ ایک آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قانون ساز اور میڈیا صحت کے بنیادی حقائق سے ناآشنا: وزیر صحت
ڈاکٹر مختار بھرتھ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ پاکستان میں صحت عامہ اور بیماریوں سے بچاؤ کے اقدامات میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ لاعلمی ہے جو ملک کے قانون سازوں اور میڈیا نمائندوں میں صحت سے متعلق بنیادی حقائق کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا:
"ہمارے بہت سے پارلیمنٹیرینز یہ نہیں جانتے کہ فارمولہ دودھ کیا نقصان پہنچا سکتا ہے، یا ماں کا دودھ بچوں کے لیے کس قدر ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے دودھ کے متبادل (فارمولہ دودھ) سے متعلق قانون سازی مسلسل التوا کا شکار ہے۔”
انہوں نے یہ بھی افسوس کا اظہار کیا کہ کئی اہم افراد کو یہ تک معلوم نہیں کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی پانی سے نہیں بلکہ متاثرہ خون یا آلودہ آلات سے پھیلتے ہیں۔
ماں کا دودھ: بچوں کے لیے پہلا ٹیکہ، پہلی حفاظت
اس اجلاس میں یونیسیف کی نمائندہ برائے پاکستان پرنیل آئرن سائیڈ نے بھی شرکت کی اور اپنی گفتگو میں کہا:
"ماں کا دودھ ہر بچے کا پہلا ٹیکہ، پہلا حق اور پہلی قدرتی حفاظت ہے۔ یہ نہ صرف بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ قدرتی مانع حمل کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ خواتین جو دو سال تک صرف اپنا دودھ پلاتی ہیں، وہ اس دوران حمل سے بھی محفوظ رہتی ہیں، مگر بدقسمتی سے اس سادہ مگر مؤثر حقیقت سے اکثر خواتین لاعلم ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلانے کا ہدف 60 فیصد مقرر ہے، جبکہ پاکستان اس وقت 47 فیصد پر ہے، جو ایک واضح کمی اور تشویش کی علامت ہے۔
ماں کے دودھ کے فوائد اور فارمولہ دودھ کے خطرات
ڈاکٹر مختار بھرتھ نے ماں کے دودھ کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بچوں کو غذائی قلت، ڈائریا، نمونیا اور دیگر مہلک بیماریوں سے بچاتا ہے۔ دوسری جانب، فارمولہ دودھ کے بے جا استعمال سے بچے ان بیماریوں کے خطرے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے فارمولہ دودھ کی جارحانہ اور گمراہ کن تشہیر اس وقت پاکستان میں ایک سنجیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
میڈیا اور قانون سازوں کا کردار کلیدی قرار
مشاورتی اجلاس میں ماہرین نے اس امر پر زور دیا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ماں کے دودھ کی افادیت کو اجاگر کرے بلکہ فارمولہ دودھ کی گمراہ کن تشہیر کے خلاف آواز بھی بلند کرے۔ اجلاس کے اختتام پر صحافیوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ منظور کیا جس میں ماں کے دودھ کی ترویج، فارمولہ دودھ کے نقصانات سے متعلق شعور بیدار کرنے، اور ایسی مصنوعات کی گمراہ کن تشہیر کے خلاف مؤثر اقدام اٹھانے کا عزم کیا گیا۔
ورکنگ ویمن کے لیے ڈے کیئرز ناگزیر
اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو خواتین ملازمت پیشہ ہیں، ان کے لیے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے مناسب سہولیات کی عدم موجودگی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مقررین نے زور دیا کہ تمام سرکاری و نجی اداروں میں ڈے کیئر سینٹرز کا قیام یقینی بنایا جائے تاکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا فطری حق آسانی سے ادا کر سکیں۔
نتیجہ: شعور، قانون اور پالیسی میں فوری بہتری کی ضرورت
یہ حقیقت اب مزید نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان میں بچوں کی صحت اور غذائیت سے متعلق صورتحال نازک ہے۔ اس کا حل صرف طبی شعبے میں نہیں بلکہ قانون سازی، میڈیا بیداری، اور معاشرتی شعور کی سطح پر وسیع اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔
اختتامیہ:
ماں کا دودھ نہ صرف ایک بچے کی جسمانی نشوونما کے لیے بہترین غذا ہے بلکہ یہ قوم کی صحت مند نسل کی بنیاد ہے۔ اس فطری حق کو تسلیم کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ریاست، والدین، میڈیا اور پالیسی سازوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔