
امریکی صدر کا اسرائیل کو سخت انتباہ: مغربی کنارے کے انضمام پر واشنگٹن کی حمایت ختم ہو سکتی ہے
“میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ کسی بھی ایسے قدم کی حمایت نہیں کرے گا جو خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچائے۔”
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو واضح انتباہ دیا ہے کہ اگر اس نے مقبوضہ مغربی کنارے (West Bank) کو اپنے ملک میں ضم کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کی مکمل حمایت کھو سکتا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی پارلیمنٹ میں مغربی کنارے کے متنازعہ علاقوں کو اسرائیلی ریاست میں شامل کرنے سے متعلق مسودہ قانون زیر غور ہے۔
صدر ٹرمپ نے امریکی جریدے ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ “میں اسرائیل کو دو ٹوک پیغام دینا چاہتا ہوں — اگر انہوں نے مغربی کنارے کے علاقوں کو ضم کرنے کی کوشش کی، تو وہ امریکہ کی سیاسی، فوجی اور سفارتی حمایت کھو دیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے واضح رہی ہے کہ فلسطینی علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، نہ کہ یک طرفہ اقدامات کے ذریعے۔ “میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ کسی بھی ایسے قدم کی حمایت نہیں کرے گا جو خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچائے۔”
مغربی کنارے کا تنازع اور امریکی موقف
مقبوضہ مغربی کنارہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کئی دہائیوں سے تنازعہ کا مرکز ہے۔ 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ جما رکھا ہے، تاہم عالمی برادری اس علاقے کو فلسطینی سرزمین تسلیم کرتی ہے۔
ماضی میں بھی کئی اسرائیلی حکومتوں نے مغربی کنارے کے حصوں کو ضم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، مگر امریکہ کی حمایت ہمیشہ اس شرط سے مشروط رہی کہ یہ اقدام فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر اسرائیلی حکومت کو یاد دلایا کہ “امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے کھڑا رہا ہے، مگر سلامتی کے نام پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قابلِ قبول نہیں۔”
امریکی وزیر خارجہ کی تنبیہ
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اسرائیلی پارلیمنٹ میں زیرِ غور مسودے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے کا انضمام خطے میں امن کے لیے جاری کوششوں، بالخصوص غزہ جنگ بندی معاہدے، کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
روبیو کے مطابق، “اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا تو نہ صرف عرب دنیا کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے تاریخی اتحاد پر بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔”
عرب ممالک اور عالمی ردِعمل
عرب لیگ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کا تازہ مؤقف خطے میں توازنِ طاقت کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ ان کے مطابق، “اگر واشنگٹن نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی لہرِ تشدد جنم لے سکتی ہے۔”
اسی طرح اردن، مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی غیر رسمی طور پر مغربی کنارے کے ممکنہ انضمام پر تشویش ظاہر کی ہے۔ عرب مبصرین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کا سخت لہجہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ واشنگٹن خطے میں اپنے اتحادیوں کے مفادات کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ریاض خان کے مطابق، صدر ٹرمپ کا بیان اسرائیل کے لیے ایک غیر معمولی پیغام ہے۔ “یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی صدر نے اس قدر واضح انداز میں اسرائیل کو خبردار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن خطے میں امن کے لیے اپنی پالیسی کو ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اگر امریکی حمایت کھو دیتا ہے تو اسے یورپی یونین، چین یا روس سے متبادل حمایت حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
نتیجہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے حوالے سے سخت انتباہ ایک اہم سفارتی موڑ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ میں یک طرفہ پالیسیوں سے ہٹ کر توازن اور مذاکرات پر مبنی حکمتِ عملی اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مغربی کنارے کے مستقبل کا فیصلہ اب صرف اسرائیل یا فلسطین کا نہیں، بلکہ خطے کے امن، عالمی قانون اور واشنگٹن کے نئے سفارتی اصولوں کا امتحان بن چکا ہے۔



