
بنگلہ دیش: سابق رہنما شیخ حسینہ کا برطرفی کےبعد پہلا انٹرویو
شیخ حسینہ نے اپنے خلاف جاری انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کو ’’قانونی مذاق‘‘ قرار دیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ’’سزا پہلے سے طے شدہ‘‘ ہے۔
اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں ان کی 15 سالہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ عوام کے ایوانِ صدر پر چڑھ دوڑنے کے بعد وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے فرار ہو گئیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، اقتدار پر قابض رہنے کی کوششوں کے دوران 1,400 تک افراد مارے گئے، اور یہی اموات ان کے خلاف مقدمے کا مرکزی نکتہ ہیں۔
اٹھہتر سالہ سابق وزیرِاعظم تب سے روپوش ہیں اور پرانے اتحادی ملک بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تاہم وہ اب بھی پُرعزم ہیں، اور ان کے تازہ ترین بیانات، جو ان کے ناقدین کو اشتعال دلا سکتے ہیں، میں انہوں نے کہا کہ وہ ”اُن تمام جانوں کا سوگ مناتی ہیں‘‘ جو اُن ”خوفناک دنوں‘‘ میں ضائع ہوئیں جب سڑکوں پر طلبہ پر گولیاں چلائی گئیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی عبوری حکومت کی جانب سے عوامی لیگ پر پابندی لگانا، 17 کروڑ آبادی والے ملک میں سیاسی بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ ملک میں انتخابات فروری 2026 میں متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا، ”تمام بڑی جماعتوں بشمول عوامی لیگ کی شمولیت کے بغیر انتخابات معتبر نہیں ہو سکتے۔‘‘
اپنی معزولی کے بعد سے شیخ حسینہ کی یہ کسی صحافی سے پہلی براہِ راست گفتگو تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ”عوامی لیگ کو انتخابات سے باہر رکھ کر، یونس ملک میں مستقبل کی تقسیم کے بیج بو رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ”یونس کو عوامی لیگ کو بحال کرنا چاہیے تاکہ بنگلہ دیشی عوام کو وہ انتخاب دیا جا سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے شیخ حسینہ کی حکومت پر طویل عرصے سے مخالفین کے قتل، اپوزیشن کو دبانے، عدالتی بدعنوانی اور یکطرفہ انتخابات جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔
عبوری حکومت نے مئی میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کر کے عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی، جسے ہیومن رائٹس واچ نے ”جارحانہ‘‘ قرار دیا۔
حسینہ نے کہا، ”آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے حقیقی مقابلہ، تمام جماعتوں کے انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت، اور عوام کا متبادل امیدواروں کے درمیان انتخاب کا حق ضروری ہے۔‘‘
عوامی لیگ کی سابق رہنما نے کہا، ”انتخابات خیالات کا مقابلہ ہوتے ہیں۔ آپ کسی جماعت کو صرف اس لیے خارج نہیں کر سکتے کہ آپ کو اُس کی پالیسی پسند نہیں۔‘‘
اُن کے مخالفین، جو طویل عرصے تک ان کی حکومت کے دباؤ میں رہے، اب دوبارہ اُبھر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کو صفِ اول کا امیدوار سمجھا جا رہا ہے، جبکہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی، کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔
حسینہ پر کریک ڈاؤن کے دوران فوج کو مظاہرین پر گولیاں چلانے کا حکم دینے کا الزام ہے، جو بنگلہ دیشی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے حسینہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ”ان تمام جرائم کا مرکز‘‘ تھیں جو بغاوت کے دوران کیے گئے، اور اگر قصور وار ثابت ہوئیں تو سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔
حسینہ نے کہا، ”یہ الزامات بے بنیاد اور شواہد سے عاری ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ”یہ ایک غیر منتخب حکومت نے، جو میرے سیاسی مخالفین پر مشتمل ہے، مجھے غیرحاضری میں سزائے موت کے مقدمے میں گھسیٹنے کے لیے تشکیل دی ہے۔‘‘
اس کیس کا فیصلہ 13 نومبر کو متوقع ہے۔
انہوں نے کہا، ”افسوس کی بات ہے کہ سزا پہلے سے طے شدہ ہے، اور جب یہ سنائی جائے گی تو مجھے حیرت نہیں ہو گی۔‘‘

ہجوم پر فائرنگ کا حکم
حسینہ کو ریاست کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نے دفاع فراہم کیا، مگر انہوں نے کہا کہ وہ صرف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) جیسے ”غیرجانبدار‘‘ کارروائی کو تسلیم کریں گی۔
انہوں نے کہا، ”یہ الزام کہ میں نے ذاتی طور پر سکیورٹی فورسز کو ہجوم پر گولی چلانے کا حکم دیا، بے بنیاد ہے،‘‘ اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ”کمانڈ کے نظام میں کچھ غلطیاں‘‘ ضرور ہوئیں۔
شیخ حسینہ کا کہنا تھا،”لیکن مجموعی طور پر، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے فیصلے متناسب، نیک نیتی پر مبنی اور انسانی جانوں کے نقصان کو کم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔‘‘
استغاثہ، جو مقدمے کو منصفانہ قرار دیتا ہے، نے پولیس کی تصدیق شدہ آڈیو ٹیپس پیش کیں جن میں مبینہ طور پر حسینہ کو ”پرتشدد ہتھیاروں‘‘ کے استعمال کا حکم دیتے سنا گیا۔
حسینہ نے کہا کہ ان ریکارڈنگز کو ”سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا‘‘ ہے۔
انہوں نے اپنے وفاداروں پر کی جانے والی کارروائی کی بھی نشاندہی کی، جس میں رواں سال فروری میں سکیورٹی فورسز نے ”آپریشن ڈیول ہنٹ‘‘ کے نام سے کارروائی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا، جن پر ملک کو ”غیر مستحکم کرنے‘‘ کی کوشش کا الزام تھا۔
انہوں نے تاہم ان سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد کی قسمت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جو ان کی حکومت کے دوران خفیہ حراستی مراکز میں لاپتہ ہوئے۔
مستقبل کے حوالے سے، جب اے ایف پی نے پوچھا کہ کیا وہ دوبارہ سیاست میں واپسی کا ارادہ رکھتی ہیں، تو حسینہ نے جواب دیا، ”میری ترجیح بنگلہ دیش کی فلاح اور ملک میں استحکام ہے۔‘‘



