
واشنگٹن / سارائیوو: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی اتحادی اور بوسنیا و ہرزیگووینا کے سرب علاقے ریپبلیکا سرپسکا کے معزول صدر میلوراڈ ڈوڈک پر سے اقتصادی اور سفری پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ اس فیصلے نے بلقان خطے میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کو جنم دیا ہے۔
ڈوڈک پر عائد پابندیاں اس وقت ہٹائی گئیں جب انہیں رواں ماہ بوسنیا کی ایک عدالت نے ڈیٹن امن معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا سنائی تھی — وہی معاہدہ جس نے 1990 کی دہائی میں بلقان میں خونی نسلی جنگوں کا خاتمہ کیا تھا۔
ڈوڈک پر پابندیوں کی وجوہات
میلوراڈ ڈوڈک، جو گزشتہ دو دہائیوں سے سرب اکثریتی علاقے ریپبلیکا سرپسکا میں اقتدار پر قابض ہیں، نے ماضی میں بارہا بوسنیا سے علیحدگی اور سربیا کے ساتھ اتحاد کی دھمکیاں دیں۔ ان کی علیحدگی پسند پالیسیوں نے نہ صرف نسلی کشیدگی کو ہوا دی بلکہ بوسنیا کے یورپی یونین میں شمولیت کے عمل کو بھی سست کر دیا۔
امریکی محکمہ خزانہ نے پہلے ڈوڈک کو ایک “کرپٹ سرپرستی نیٹ ورک” کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان پر مالی پابندیاں عائد کی تھیں۔ لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے خطے میں ایک بار پھر ان کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔
لابنگ اور سیاسی اثرات
ذرائع کے مطابق، ڈوڈک پر سے پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں کی جانب سے کئی ماہ کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔ ان لابیوں نے ڈوڈک کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو بوسنیا جیسے "مسلم اکثریتی ملک” میں "عیسائی اقدار” کا محافظ ہے، اور جسے بقول ان کے "امریکی قانون سازی کی زیادتیوں” کا شکار بنایا گیا۔
کنگز کالج لندن کے بلقان امور کے ماہر اینڈی ہوکس ہاج نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک خطرناک پیغام بھیجتا ہے:
"یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ کے پاس صحیح تعلقات اور مالی وسائل ہوں، تو آپ کو پابندیوں کی فہرست سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہ ایک منفی مثال قائم کر رہا ہے، خاص طور پر ڈیٹن معاہدے کی 30 ویں برسی کے قریب۔”
ٹرمپ کے اتحادیوں کی مداخلت
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، سابق الینوائے گورنر راڈ بلاگوجیوچ — جنہیں ٹرمپ نے 2020 میں کرپشن کے الزامات سے معاف کیا تھا — نے ڈوڈک کے حق میں مہینوں تک مہم چلائی۔ بدھ کے روز انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا:
"یہ اقدام جمہوریہ سرپسکا کے ساتھ انصاف کی بحالی ہے۔”
ان کے اس بیان کے ساتھ یہ نوٹ شامل تھا:
“یہ مواد RRB Strategies LLC کے ذریعے جمہوریہ Srpska کی جانب سے تقسیم کیا گیا ہے۔”
ڈوڈک کا ردعمل
ڈوڈک نے پابندیاں ختم ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے اس فیصلے نے “اوباما اور بائیڈن انتظامیہ کی سنگین ناانصافی” کو درست کیا ہے۔ تاہم مبصرین یاد دلاتے ہیں کہ انہیں 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ ہی نے ڈیٹن معاہدے میں مداخلت پر پہلی بار منظور کیا تھا، جس کے بعد بائیڈن حکومت نے 2022 اور 2025 میں ان پر دوبارہ سخت پابندیاں لگائیں۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور OFAC کی وضاحت
امریکی دفترِ برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (OFAC) نے اس فیصلے کی کوئی تفصیلی وضاحت جاری نہیں کی۔ تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب سرپسکا کی اسمبلی نے حالیہ ہفتوں میں "ملک میں استحکام کو بہتر بنانے کے لیے تعمیری اقدامات” کیے۔
ذرائع کے مطابق، یہ “اقدامات” دراصل سرپسکا کی جانب سے ایک عبوری صدر کی تقرری اور وفاقی حکومت سے ٹکراؤ کے بجائے مصالحانہ رویہ اپنانے سے متعلق ہیں۔
بین الاقوامی خدشات
یورپی یونین اور بوسنیا کے سیاسی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ خطے میں علیحدگی پسند رجحانات کو تقویت دے سکتا ہے۔
سارائیوو کے ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق:
“یہ پیغام خطے کے دیگر مطلق العنان رہنماؤں کے لیے خطرناک مثال بن سکتا ہے — کہ اگر آپ کے پاس واشنگٹن میں اثر و رسوخ ہے تو آپ کے خلاف لگائی گئی پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں۔”
ڈیٹن امن معاہدے کا تناظر
1995 میں ڈیٹن امن معاہدے نے بوسنیا کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا — فیڈریشن آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا (جہاں بوسنیائی مسلمان اور کروٹس اقتدار میں شریک ہیں) اور ریپبلیکا سرپسکا (سرب اکثریتی علاقہ)۔
ڈوڈک گزشتہ دو دہائیوں سے ریپبلیکا سرپسکا کے سیاسی نظام پر غالب ہیں اور اکثر سربیا اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات پر زور دیتے آئے ہیں۔
نتیجہ
ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے بلقان خطے میں سیاسی بے چینی پیدا کر دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف امریکی اصولی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر جمہوری اقدار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا واشنگٹن کا یہ فیصلہ خطے میں استحکام لاتا ہے یا ایک بار پھر بلقان کی نازک نسلی سیاست کو بھڑکا دیتا ہے۔



