مشرق وسطیٰاہم خبریں

غزہ میں ہلاک ہونے والے دو اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل کے حوالے — جنگ بندی کے باوجود کشیدگی برقرار

“ہمارے یرغمالیوں کو واپس لانے کی کوششیں بلاتعطل جاری ہیں، اور ہم آخری یرغمالی کی واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔”اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو

غزہ / یروشلم: جمعرات کے روز غزہ کے وسطی علاقے دیر البلح میں ایک اہم پیش رفت کے دوران ریڈ کراس کی گاڑیوں نے دو اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کیں، جنہیں حماس نے پہلے یرغمال بنائے جانے کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی ثالثی میں قائم جنگ بندی مسلسل دباؤ میں ہے۔

اسرائیلی حکومت کے مطابق، حماس نے دونوں مقتول یرغمالیوں کے اجسام کے باقیات ریڈ کراس کے حوالے کیے، جو انہیں سرحد پار کر کے اسرائیل لے گئی۔ یہ باقیات اب قومی فرانزک لیبارٹری میں منتقل کر دی گئی ہیں جہاں ان کی باضابطہ شناخت کا عمل جاری ہے۔

اگر ان باقیات کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ غزہ میں اب بھی ہلاک ہونے والے 11 یرغمالیوں کی لاشیں باقی ہیں، جن کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

اسرائیلی حکومت کا ردِعمل

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا:

“ہمارے یرغمالیوں کو واپس لانے کی کوششیں بلاتعطل جاری ہیں، اور ہم آخری یرغمالی کی واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔”

حکومتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے اب باقی ماندہ یرغمالیوں کی تلاش اور ان کی لاشوں کی بازیابی کے لیے "درپردہ سفارتی اور انٹیلیجنس کوششوں” میں مصروف ہیں۔

پس منظر: تازہ ترین اسرائیلی حملے اور انسانی نقصان

یہ منتقلی ایسے موقع پر ہوئی ہے جب منگل کے روز اسرائیل نے رفح میں حماس کے ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک کرنے کے ردِعمل میں غزہ پر شدید فضائی حملے کیے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق، ان حملوں میں 100 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن میں کم از کم 46 بچے شامل تھے۔ یہ گزشتہ تین ہفتوں میں، جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے، غزہ میں سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔

اسرائیلی فوج نے حملوں کو “دہشت گردی کے خلاف محدود جوابی کارروائی” قرار دیا، جبکہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اسے “غیر متناسب فوجی طاقت کا استعمال” قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔

جنگ بندی برقرار مگر نازک مرحلے پر

شدید حملوں کے باوجود، حماس اور اسرائیل دونوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر قائم ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

“غزہ میں جنگ بندی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اگر حماس نے کوئی شرارت کی تو ہم انہیں بہت آسانی سے ختم کر دیں گے۔”

ٹرمپ کے بیان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بار پھر دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ انسانی بنیادوں پر ہونے والے یرغمالیوں کے تبادلے اور امدادی رسائی کے معاہدے پر قائم رہیں۔

بازیابی کے عمل میں اتار چڑھاؤ

تازہ ترین منتقلی نسبتاً پرامن طور پر مکمل ہوئی، تاہم اس سے قبل کئی بار یہ عمل تعطل کا شکار ہوا۔
منگل کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک مقتول یرغمالی کی باقیات اسرائیل کے حوالے کرے گی، لیکن اسرائیلی بمباری کے چند گھنٹے بعد اس نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔

پیر کے روز بھی حماس نے ایک اسرائیلی شہری اوفیر زارفتی کی باقیات حوالے کی تھیں، جو دو سال قبل غزہ میں ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم وہ موجودہ جنگ بندی کے فریم ورک میں شامل یرغمالیوں کی فہرست کا حصہ نہیں تھے۔ اس اقدام پر نیتن یاہو نے حماس پر “معاہدے کی واضح خلاف ورزی” کا الزام عائد کیا تھا۔

ریڈ کراس کا مؤقف

بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس (ICRC) نے جمعرات کے روز تصدیق کی کہ اس کے عملے نے دیر البلح میں لاشوں کی منتقلی کا عمل مکمل کیا ہے۔
ایک بیان میں ادارے نے کہا:

“یہ ناقابلِ قبول ہے کہ بازیابی کے عمل کو سیاسی دباؤ یا جھوٹے اعلانات کے ذریعے متاثر کیا جائے، خاص طور پر اس وقت جب درجنوں خاندان اپنے لاپتہ پیاروں کی خبروں کے منتظر ہیں۔”

علاقائی اور بین الاقوامی ردِعمل

یورپی یونین، اقوام متحدہ اور قطر — جو اس جنگ بندی کے سہ فریقی ضامن ہیں — نے دونوں فریقوں سے تحمل اور انسانی اصولوں کی پاسداری پر زور دیا ہے۔
قطری وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا:

“ہر انسانی لاش کی واپسی ایک امید کی کرن ہے، لیکن سیاسی فائدے کے لیے انسانی لاشوں کو سودے بازی کا ذریعہ بنانا ناقابلِ قبول ہے۔”

غزہ کی صورتحال بدستور ابتر

ادھر غزہ میں انسانی بحران بدستور سنگین ہے۔ یو این اوچا کے مطابق، گزشتہ ہفتے کے حملوں کے بعد پچاس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور جنوبی غزہ میں ادویات، ایندھن اور صاف پانی کی قلت شدت اختیار کر گئی ہے۔

نتیجہ

غزہ سے دو مقتول یرغمالیوں کی باقیات کی منتقلی ایک انسانی پیش رفت ضرور ہے، مگر یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود خطے کی فضا کس قدر نازک اور غیر یقینی ہے۔
اسرائیل اور حماس دونوں اپنی سیاسی اور عسکری پوزیشنوں پر ڈٹے ہوئے ہیں، جبکہ عالمی برادری ایک بار پھر انسانی بنیادوں پر پائیدار امن کی اپیل کر رہی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button