
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن سے متصل پاک افغان بارڈر پر جمعرات کی شام پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان دوبارہ جھڑپیں ہوئی ہیں، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ تاہم، خوش قسمتی سے ان جھڑپوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
تفصیلات کے مطابق:
یہ جھڑپیں اُس وقت ہوئی جب دونوں ممالک کے وفود ترکیہ کے شہر استنبول میں فائربندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے۔ اس موقع پر فائرنگ کا آغاز تقریباً پانچ بجے مرکزی سرحدی گزرگاہ ’بابِ دوستی‘ کے قریب اقبال پوسٹ اور تصدق پوسٹ کے درمیان ہوا۔ دونوں جانب سے چھوٹے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، اور اس دوران دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دیں، جن کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ وہ مارٹر گولوں کے فائر تھے۔
فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں نے سرحدی پٹی میں خوف و ہراس پھیلایا۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباً نصف گھنٹے تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔ پاکستانی حدود میں بابِ دوستی کے قریب موجود افغان مہاجرین کے ہولڈنگ کیمپ میں لوگ گاڑیوں کے نیچے چھپ گئے۔ انتظامیہ نے فوراً مہاجرین کو سرحد کے قریب سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کر دیا، جبکہ افغان علاقے ویش منڈی میں شہری گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو گئے۔
چمن کے مقامی اسپتال میں ایمرجنسی نافذ:
چمن کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، لیکن ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر رشید ناصر کے مطابق، اس وقت تک کوئی زخمی ہسپتال نہیں لایا گیا۔ افغان سرحدی صوبے قندھار کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ علی محمد حقمل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ کا دورانیہ مختصر تھا اور افغان علاقوں کے رہائشیوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ تقریباً 10 سے 15 منٹ تک جاری رہا۔
پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کا افغان دعووں کی تردید
وزارتِ اطلاعات و نشریات پاکستان نے افغان فریق کی جانب سے چمن میں پاک افغان سرحد پر ہونے والے تازہ ترین جھڑپوں کے حوالے سے گردش کرنے والے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان فورسز کی طرف سے فائرنگ کا آغاز کیا گیا، جس کا پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری، محتاط اور ذمہ دارانہ انداز میں جواب دیا۔
پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی:
وزارتِ اطلاعات کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ "پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی کے نتیجے میں صورتحال پر قابو پا لیا گیا اور جنگ بندی بدستور برقرار ہے۔” بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے کسی بھی اشتعال انگیزی یا اشتعال کا جواب محض دفاعی طور پر دیا اور فائرنگ کے بعد صورتحال کو جلد ہی قابو میں کر لیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ "پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی کا مقصد سرحدی علاقے میں امن قائم رکھنا اور مزید کشیدگی کو روکنا تھا، اور اس وقت جنگ بندی معاہدہ بدستور مؤثر ہے۔”
افغانی شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ:
چمن میں سکیورٹی ذرائع کے مطابق، فائرنگ ایک افغان شادی کی تقریب کے دوران ہوائی فائرنگ کے بعد شروع ہوئی، جسے پاکستانی فورسز نے سرحد پار سے حملہ سمجھا۔ ردِعمل میں پاکستانی فورسز نے جوابی فائرنگ کی، تاہم مقامی سطح پر رابطوں کے بعد صورتحال جلد قابو میں آ گئی۔
استنبول مذاکرات:
یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئیں جب پاکستان اور افغانستان کے وفود استنبول میں فائربندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے۔ اس سے پہلے، گزشتہ ہفتے استنبول مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب جنگ بندی کی تفصیلات پر دونوں فریقوں میں اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر عدم تعاون کا الزام لگاتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جھڑپیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں۔
اکتوبر کی جھڑپیں:
اقوام متحدہ کے مطابق، اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والی جھڑپوں میں افغان سرحدی علاقے میں 50 شہری ہلاک اور 447 زخمی ہوئے، جبکہ کابل میں ہونے والے دھماکوں میں کم از کم پانچ افراد مارے گئے۔ پاکستانی فوج کے مطابق ان جھڑپوں میں 23 اہلکار ہلاک اور 29 زخمی ہوئے، تاہم شہری نقصان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ چمن کے مقامی حکام نے بتایا کہ اکتوبر کی جھڑپوں میں افغانستان کی حدود میں کم از کم پانچ پاکستانی شہری بھی مارے گئے، جن کی لاشیں ہلالِ احمر کے ذریعے چمن لائی گئیں۔
سرحدی علاقے کی حساسیت:
چمن اور سپین بولدک میں سرحد آبادیوں کے درمیان سے گزرتی ہے، جس کے باعث جھڑپوں کے دوران مقامی بستیاں براہِ راست زد میں آتی ہیں۔ یہ علاقہ 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کے دیگر حصوں سے منفرد اور زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں اور کشیدگی کی وجہ سے 12 اکتوبر کے بعد سے پاک افغان سرحد بند ہے، جس کے باعث آمدورفت، باہمی تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معطل ہو گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے صرف افغان مہاجرین کو وطن واپسی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کی بار بار بندش:
پاکستانی انسانی حقوق کمیشن نے بدھ کو اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کی بار بار بندش نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بسنے والی آبادیوں کے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل اور بامعنی مذاکرات پر زور دیا گیا، تاکہ اس کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور سرحدوں پر امن کی صورتحال کو بحال کیا جا سکے۔
تنازع کی بنیادی وجوہات:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ سکیورٹی کے مسائل ہیں۔کابل عسکریت پسند گروہوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دے رہا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ تاہم طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اختتام:
چمن اور افغان سرحدی علاقوں میں جاری کشیدگی اور جھڑپیں دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں۔ دونوں طرف سے الزام تراشی اور سرحدوں کی بندش سے نہ صرف تجارتی اور معاشی روابط متاثر ہو رہے ہیں بلکہ یہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس صورتحال میں مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے کشیدگی کو کم کرنا اور دیرپا امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔








