اسلام ٹائمز کے مطابق جنرل فیض کی تبدیلی میں انڈیا کا کتنا کردار ہے، یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا، لیکن ایرانی جنرل کے دورے اور وزیراعظم کے واضح موقف سے لگتا ہے کہ اب امریکہ کا اثر و رسوخ پاکستان میں کم ہوچکا ہے۔ جو امریکہ کے "دوست” یہاں تھے، وہ بھی اپ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔
جب سے پاکستان میں آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کا معاملہ سامنے آیا ہے، سوشل میڈیا پر ایک عجب طوفان برپا ہے۔ ہر بندہ دانشور بنے اپنی اپنی بھانت بھانت کی بولیاں بول رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنا ذہن کو الجھانے کے مترادف ہے۔ اب تو کچھ مریضوں کو ڈاکٹر پرہیز میں لکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا سے دور رہنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اب آگاہی بھی بیماری شمار ہونے لگی ہے۔ اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی چیف کو کابل کے ہوٹل میں چائے پینی مہنگی پڑ گئی ہے۔ کس نے جنرل فیض کو کہا تھا کہ فوراً کابل پہنچ جائیں اور وہاں کھڑے ہو کر "سب ٹھیک ہو جائے گا” کی یقین دہانی کروائیں، یہ یقین دہانی بھی اس وقت کروائی گئی جب امریکہ کے زخم ابھی تازہ ہیں اور انڈیا تو باولا ہوچکا ہے، اتنا باولا کہ اسے دو منزلہ ہوٹل کی بھی پانچویں منزل دکھائی دیتی ہے، ارنب گوسوامی جیسے سینیئر اینکر بھی جھوٹ کا سہارا لیتے پکڑے گئے۔ گوسوامی جی نے کہا کہ کابل کے سرینا ہوٹل کے پانچویں فلور پر آئی ایس آئی کے جرنیل موجود ہیں۔ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں؟ جس کے جواب میں پاکستانی تجزیہ کار عبدالصمد یعقوب نے کہا کہ ارنب، میں نے چیک کیا ہے، کابل سرینا ہوٹل کا تو پانچواں فلور ہی نہیں ہے، اس کے تو صرف دو فلور ہیں۔ اس بے ہودگی پر ارنب گوسوامی نے شرمندگی اور ذلالت سے بھرپور قہقہہ لگا دیا۔
اب سوشلستان میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ انڈیا کو جنرل فیض کا کابل کے ہوٹل میں چائے پینا ایک آنکھ نہیں بھایا، یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے فوری طور پر واشنگٹن فون گھمائے اور آئی ایس آئی چیف کی اس "حرکت” پر انہیں کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اب بھارتی دباو پر امریکہ بہادر کی غیرت بھی جاگ گئی اور فوراً آرمی چیف سے کہا گیا کہ وہ آئی ایس آئی چیف کو تبدیل کر دیں، جس پر امریکہ کے حکم پر جنرل فیض کو تبدیل کر دیا گیا، اس معاملے پر وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان تنازع بھی کھڑا ہوا، جسے اب واقفانِ حال کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ "سلجھا” لیا گیا ہے۔ مسئلے کا سلجھ جانا ان قوتوں کی ناکامی ہے، جو آرمی چیف اور وزیراعظم کو آپس میں لڑانے کی خواہش لئے ہوئے تھیں۔
ادھر جس وقت جی ایچ کیو اور پی ایم ہاوس کے درمیان یہ تنازع چل رہا تھا، عین اس وقت پاکستان میں امریکی ناظم الامور بھی فعالیت دکھاتے ہوئے اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر رہی تھیں۔ امریکی ناظم الامور انجیلا پی ایگلر نے لاہور میں جاتی امراء جا کر مسلم لیگ (ن) کی رہنماء مریم نواز سے ملاقات کی۔ مریم نواز سے ملاقات کے بعد وہ ماڈل ٹاون میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پہنچیں اور ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انجیلا پی ایگلر کی تواضع چائنیز کھانوں سے کی گئی۔ (شہباز شریف نے یقیناً چینی سفیر کو فون کرکے بتایا ہوگا کہ انہوں نے امریکیوں کو چینی کھانے کھلا دیئے ہیں)۔ شہباز شریف اور مریم نواز کیساتھ امریکی ناظم الامور کی ملاقات میں کیا کچھڑی پکائی گئی، ابھی تک اندر کی بات سامنے نہیں آئی، مگر سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ان ملاقاتوں میں نواز لیگ کو کوئی گرین سگنل دیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تنازع شدت اختیار کر جائے اور فوج وزیراعظم صاحب کو چلتا کرے تو اس صورتحال میں نون لیگ تیاری کرلے کہ کس کو وزیراعظم بنانا ہے۔ ہوسکتا ہے مریم نواز کو یہ عہدہ دیدیا جائے یا شہباز شریف کو وزیراعظم بنا دیا جائے، کیونکہ شہباز شریف مریم نواز کی نسبت فوج کے تھوڑا قریب ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کئے ہیں، بدامنی اور دہشتگردی کو فروغ دیا ہے، فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا ہے، اب ایک بار پھر امریکہ کی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکش عمران خان کے مدمقابل آرمی چیف کو کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جنرل حمید گل کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہماری فوج میں اس وقت تک کوئی آرمی چیف نہیں بن سکتا، جب تک امریکہ گرین سگنل نہ دے۔ یوں بعض حلقے کہتے ہیں کہ ہماری فوج میں امریکہ کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ یہ حلقے حالیہ جنرل فیض کی تبدیلی کی کڑیاں بھی اسی سے ملاتے ہیں۔ اب جنرل فیض کی تبدیلی میں انڈیا کا کتنا کردار ہے، یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا، لیکن ایرانی جنرل کے دورے اور وزیراعظم کے واضح موقف سے لگتا ہے کہ اب امریکہ کا اثر و رسوخ پاکستان میں کم ہوچکا ہے۔ جو امریکہ کے "دوست” یہاں تھے، وہ بھی اپ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ پاکستانی پالیسی ساز امریکی ناظم الامور کی حرکات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورہ انڈیا پر دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کو بھی دیکھا، جس میں انہوں نے واضح کہہ دیا کہ پاکستان کیساتھ صرف افغانستان کے مسئلے پر بات ہوگی، اب پاکستان کیساتھ ماضی جیسے تعلقات کی امید نہیں کی جا سکتی۔ایسی ہی باتیں امریکی محکمہ خارجہ بھی کر رہا ہے۔ جب امریکہ پاکستان کو مائنس کرکے انڈیا سے تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے تو پاکستان کے پالیسی ساز اس امر کو یقینی بنائیں کہ امریکہ کی بجائے خطے کے ممالک کیساتھ تعلقات بہتر کریں، چین، ایران، ترکی اور روس کیساتھ بہتر تعلقات ہی پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ پاکستان کو اس بلاک کے قیام پر کام کرنا چاہیئے۔ اس سے سی پیک کو بھی وسعت ملے گی اور پاکستان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔ ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف کا دورہ بھی حوصلہ افزاء ہے۔ جن امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور جو معاہدے ہوئے ہیں، وہ پاکستان کے مفاد میں ہیں، اب ایسی صورتحال میں امریکی کی جانب سے سازشیں ہونا یقینی امر ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی ان سرگرمیوں سے سے آگاہ رہنا ہوگا۔ امریکہ وہ بچھو ہے، ڈسنا جس کی فطرت ہے اور مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔