کابل: نشے میں مبتلا افراد سے متعلق طالبان کا انوکھا اقدام
کابل: منڈے ہوئے سروں اور سہمی ہوئی نظروں سے منشیات کے بحالی مرکز میں بیٹھے ان افراد کو یہاں تک لانے میں طالبان کو 45 دن لگے۔
کابل: منڈے ہوئے سروں اور سہمی ہوئی نظروں سے منشیات کے بحالی مرکز میں بیٹھے ان افراد کو یہاں تک لانے میں طالبان کو 45 دن لگے۔
طالبان پندرہ اگست کو کابل میں داخل ہوئے،اس سے قبل دارالحکومت کی پولیس نشے کے عادی ان افراد کو گرفتار کرکے بحالی مرکز منتقل کردیتی تھی، لیکن جب سے طالبان نے دارالحکومت کا کنٹرول حاصل کیا ایسے علاقوں پر چھاپوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے جہاں نشے کے عادی لوگ جمع ہوتے ہیں۔
مغربی کابل میں ایک پل جسے” پل سوختہ” کہا جاتا ہے، یہاں سینکڑوں منشیات کے عادی افراد پناہ لیتے ہیں جو نہ صرف منشیات کا استعمال کرنے بلکہ پرتشدد جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔
اس دریائی گزرگاہ کے اطراف گندگی ، پیشاب اور قے کی بدبو بہت زیادہ ہے۔جہاں کشنز ، کمبل ، ریت سے بھرے بیگ اور ترپال سے نشئی افراد نے کیمپ بنائے ہوئے ہیں۔سر جوڑے جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھے یہ افغان اپنی رگوں میں مسلسل زہر بھر رہے ہیں، کئی اپنے ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں، تو کئی ہیروئن پہ اپنی جان نچھاور کر رہے ہیں، پولیس آتی ہے اور انہیں کبھی ان کی رضا مندی سے اور کبھی زبردستی لے جاتی ہے، لیکن یہ اپنے نشے کی لت کے باعث شفا خانوں سے واپس بھاگ آتے ہیں۔
منشیات کے یہ عادی افراد بحالی کلینک کی ایمبولینس کو پہچانتے ہیں جسے دیکھتے ہی بھاگنے کے قابل نشئی دریائے پغمان کے اس پل کے نیچے سے نکل پڑتے ہیں تاہم شدید نشے کے شکار لوگوں کو مرکز کے اہلکار اٹھا کر ایمبولینس میں ڈال دیتے ہیں۔
ایم 16اور اے کے 47 رائفلز سے لیس طالبان جنگجو ہیروئن اور میتھامفیٹامائن استعمال کرنے والے نشئی افراد کو اپنی رائفلوں کے ساتھ دھمکاتے ہوئے زبردستی ساتھ چلنے پر آمادہ کرتے ہیں جن میں سے بعض ان سے لڑتے بھی ہیں۔
طالبان چھاپہ مارتے ہی یہاں نشے کے عادی افراد کو چونکا دینے کے لیے چند ہوائی فائر کرتے ہیں اور ساتھ ہی نشئی افراد کو پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ پھر کابل میں ہی ایک ہزار بستروں والے مرکز میں اپنے 45 دن کی بحالی کے قیام کے دوران اپنا وقت بڑے کمروں میں چارپائیوں پر لیٹے ہوئے گزارتے ہیں۔
یہاں علاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ افیون اور ہیروئن کے عادی افراد کا نشہ چھڑانے میں مدد کے لیے بہت کم میتھاڈون دستیاب ہے جبکہ کرسٹل میتھ کے نشے میں مبتلا افراد کا درد کم کرنے کے لیے کوئی ادویات دستیاب نہیں۔
چھتیس سالہ ایمل بھی اس بحالی مرکز میں داخل ہیں جنہیں حال ہی میں طالبان یہاں پکڑ کر لائے، رجسٹریشن روم میں داخل ہوتے ہی ایک رضاکار جو یہاں کام کرنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح خو دبھی نشے کے کبھی عادی رہے ہیں ، اپنی لاگ بک کھولتے ہیں۔
نام؟ ایمل۔
آپ کے والد کا نام؟
عبدالمتین۔
شادی شدہ؟
جی ہاں. میرے تین بچے ہیں ، دو لڑکیاں اور ایک لڑکا۔
کام کر رہے ہیں؟
فی الحال نہیں۔
آپ کون سا نشہ کرتے ہیں؟
کرسٹل (میتھ)
کیا آپ پہلے یہاں آئے ہیں؟
ہاں ، تین بار۔ یہ چوتھی مرتبہ ہے۔ مجھے 10 دن پہلے ڈسچارج کیا گیا تھا۔
جیسے ہی ایمل رخصت ہوتا ہے 22 سالہ بلال احمد جو میتھ کا عادی ہے کی باری آجاتی ہے۔
“میں یہاں آ کر خوش ہوں ،”۔ 45 دن میں انشااللہ ہم گھر جا سکتے ہیں۔
یہاں آنے والوں کی احتیاط سے تلاشی لی جاتی ہے۔
کلینک میں عملے کا ایک اور رکن نئے آنے والوں کے جوتے،کپڑے چیک کرنے کے ساتھ ان کی جسمانی تلاشی بھی لیتا ہے تاکہ ان کے پاس کوئی منشیات ہو تو وہ ضبط کی جا سکے ۔
وہاں ان کا پرانا لباس اتروادیا جاتا ہے اور نہانے کے لئے انہیں شیمپو کا ایک پیکٹ دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ تولیہ نہیں ہوتا۔
جس کے بعد انہیں نائیوں کی ایک ٹیم کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو جوئوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ان کے سر مونڈ دیتے ہیں۔
یہاں کوئی بچوں کی طرح بانسری بجانے کی کوشش کرتا ہے تو کسی کواشارہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ اسے بھوک لگی ہے ۔
طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن نائن الیون کے بعد طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں سے ہیروئن کی برآمد نے طالبان کو امریکا اور مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف شورش کے دوران اربوں ڈالر فراہم کیے، اب افغانستان دنیا کی 90 فیصد ہیروئن کی پیدا کرتا ہے۔
انسداد منشیات کے ماہرین کے مطابق افغانستان کی 34 ملین آبادی میں سے11 فیصد منشیات استعمال کرنے والے ہیں ، جن میں چار سے چھ فیصد نشے کے عادی ہیں۔
دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دنیا سے طالبان نے منشیات کی پیداوار کی اجازت نہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔امریکی فوج کے ایک پرانے اڈے میں قائم مرکزکے سربراہ ڈاکٹر ظہور احمد سلطانی کا کہنا ہے کہ “یہ امارت اسلامیہ کی پالیسی ہے۔