ترکی کی جانب سے سفیروں کو نکال دینے کی دھمکی پر امریکا اور یورپی ممالک چوکنا
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے گذشتہ روز اُن 10 ممالک کے سفیروں کو ملک سے نکال دینے کا عندیہ دیا تھا
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے گذشتہ روز اُن 10 ممالک کے سفیروں کو ملک سے نکال دینے کا عندیہ دیا تھا جنہوں نے جیل میں بند سماجی کارکن عثمان کاوالا کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان ممالک میں جرمنی اور امریکا بھی شامل ہیں۔ ایردوآن کے موقف پر ردود فعل سامنے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
سویڈن ، ناروے اور ہالینڈ نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ انہیں ترکی کی جانب سے کوئی سرکاری نوٹفکیشن موصول نہں ہوا۔ ہفتے کی شب جاری مشترکہ بیان پر تینوں ممالک کے سفیروں کے دستخط ہیں۔
ناروے کی وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق ان کے ملک کے سفیر نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے ملک بدر کیے جانے کا جواز بنتا ہو۔ انہوں نے باور کرایا کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ترکی پر دباؤ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو ان معلومات کا علم ہے اور وہ ترک وزارت خارجہ سے مزید جان کاری حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
جرمنی کی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق وہ اس وقت دیگر نو متعلقہ ممالک کے ساتھ بھرپور مشاورت کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سویڈن اور امریکا نے پیر کی شام ایک بیان میں میں مطالبہ کیا تھا کہ ترکی میں کاروباری شخصیت عثمان کاوالا کے مقدمے کا منصفانہ اور جلد تصفیہ کیا جائے۔ عثمان 4 برس سے جیل میں ہیں۔
البتہ ترکی کے صدر کو ان ممالک کا یہ موقف پسند نہیں آیا اور انہوں نے ان کے سفیروں کو نکال دینے کا عندیہ دے ڈالا۔ ایردوآن کے مطابق انہوں نے وزارت خارجہ کو احکامات جاری کر دیے ہیں کہ ان دس سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کے معاملے کو دیکھا جائے۔
ناپسندیدہ شخصیت ایک سفارتی اسطلاح ہے جو عموما ملک سے نکال دینے سے پہلے استعمال کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ 64 سالہ عثمان کاوالا 2017ء سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جب کہ ان پر کوئی فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے۔ عثمان پر 2013ء کے احتجاج اور 2016ء میں فوجی انقلاب کی کوشش کے پس منظر میں متعدد الزامات ہیں۔
ایردوآن کے حالیہ بیان اور مغربی دنیا کے ساتھ نئے تناؤ کی لہر کے اندیشے کے سبب ترکی کی کرنسی لیرہ ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک گر گئی۔ رواں سال کے آغاز کے بعد سے اب تک لیرہ کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابل 20% تک کمی آ چکی ہے۔ یہ ترک حکومت کے مقررہ ہدف سے چار گنا زیادہ ہے۔