سائنس

ناکام تجربے سے فزکس کی دنیا میں نئے باب کا آغاز

مائکروبُون کے 12 میٹر طویل ڈِیٹکٹر کو 150 ٹن مائع آرگون سے بھرے ہوئے ایک ایسے بڑے کرایوجینِک (سرد) ٹینک میں رکھا گیا ہے

مائکروبُون کے 12 میٹر طویل ڈِیٹکٹر کو 150 ٹن مائع آرگون سے بھرے ہوئے ایک ایسے بڑے کرایوجینِک (سرد) ٹینک میں رکھا گیا ہے جس کا درجۂ حرارت منفی 186 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
کائنات کی تشکیل میں استعمال ہونے والے بنیادی ذرّے کا کھوج لگانے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ فزکس میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گیا ہے۔
ہماری روز مرہ زندگی کی تشکیل کرنے والے مادّے کے اس ایک اہم جزو سب ایٹامک پارٹیکل یا ذیلی جوہری ذّرے کی تحقیق کے لیے ایک بہت بڑا تجربہ کیا گیا۔
یہ تحقیق سٹیرائل نیوٹرِینو کہلانے والے ذرے کو پانے میں ناکام رہی ہے۔
اب یہ کائنات کے وجود میں آنے سے متعلق نئے نظریات کی جانب ماہرین طبیعیات کی راہنمائی کرے گی۔
مائکروبُون تجربے میں برطانیہ کے حصے کی فنڈنگ کرنے والے ادارے، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فیسیلیٹیز کونسل (ایس ٹی ایف سی)، سے وابستہ پروفیسر مارک ٹامسن اس نتیجہ کو ’بہت اہم‘ قرار دیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہرین طبیعیات کی ایک بڑی تعداد اپنے نظریات کی بنیاد سٹیرائل نیوٹرینو کی موجودگی کے امکان پر رکھتی رہی ہے۔
پروفیسر ٹامسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ خیال کافی عرصے سے پایا جاتا ہے اور اس میں کافی دلچسپی لی گئی ہے۔
’یہ نتیجہ واقعی دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ اس کا اثر پارٹیکل فزکس اور کوسمولوجی (علمِ کائنات) کے شعبوں میں ابھرنے والے نئے نظریات پر پڑے گا۔‘
مائکروبُون تجربہ ریاست ایلینائے میں قائم امریکہ کی فرمی نیشنل ایکسیلیریٹر لیبارٹری میں کیا جا رہا ہے۔ مگر اس میں کئی ملکوں کے ماہرین طبیعیات شریک ہیں۔
مائکروبُون کے الیکٹرونِک ریکس (برقیاتی پھٹوں) کو ڈیٹکٹر کے بالکل اوپر ایک ایسے پلیٹ فارم پر رکھا گیا ہے جو نتائج کو متاثر کرنے کی حامل کاسمِک ریڈئیشن یا کائنات میں موجود تابکار شعاعوں کی بڑی مقدار کو روکتا ہے۔
نیوٹرینو کائنات میں بکھرے ہوئے سب ایٹامک پارٹیکلز یا ذیلی جوہری ذرّات ہیں مگر روز مرہ کی دنیا میں کم ہی مُخل ہوتے ہیں۔ یہ ہر لمحے اربوں کی تعداد میں زمین اور اس پر بسنے والوں میں سے گزرتے ہیں۔
ان کی تین اقسام ہیں: الیکٹرون، ماؤن اور ٹاو۔ 1998 میں جاپانی سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا کہ نیوٹرینو سفر کے دوران خود کو ایک روپ سے دوسرے میں ڈھالتے رہتے ہیں۔
روپ دھارنے کے اس عمل کی توجیہ سٹینڈرڈ ماڈل کہلانے والے سب ایٹامک فزکس کے موجودہ ’بڑے نظریے‘ سے نہیں کی جا سکتی۔ بعض ماہرین طبیعیات کا خیال ہے کہ اس بات کے پتہ چلنے سے کہ نیوٹرینو کی کمیت اس قدر کم کیوں ہوتی ہے ہمیں کائنات کے موجودہ نظام اور اس کے وجود میں آنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کمیت کی کمی نیوٹرینو کے شکل بدلنے کی صلاحیت کا باعث ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button