
ایران کے ایٹمی پروگرام پر آیت اللہ علی خامنہ ای کا بڑا بیان، جانیے امریکہ کے بارے میں کیا کہا؟
ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکی تجویز پر تنقید کی ہے۔
دبئی: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران کے تیزی سے پھیلتے ہوئے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے دوران پیش کی گئی امریکی تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خامنہ ای نے واشنگٹن کے ساتھ معاہدے کے خیال کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی تجویز کو "ہم یہ کر سکتے ہیں” (ایرانی حکومت کا نعرہ) کے تصور کے بالکل خلاف قرار دیا۔
خامنہ ای نے یورینیم کی افزودگی پر کیا کہا؟
خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تہران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اپنی صلاحیت برقرار رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس 100 ایٹمی پاور پلانٹس ہیں اور انہیں افزودہ نہیں کیا گیا تو وہ ہمارے قابل استعمال نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم افزودگی نہیں کر سکتے تو امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلا دیں۔
امریکی تجویز مبہم ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کے بعد بھی امریکی تجویز کی تفصیلات غیر واضح ہیں۔ نیوز ویب سائٹ ‘Axios’ کی ایک رپورٹ میں امریکی تجویز کی تفصیلات دی گئی ہیں، جس کی الگ سے ایک امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تجویز میں ایران اور آس پاس کے ممالک کے لیے یورینیم کی افزودگی کے لیے ممکنہ جوہری کنسورشیم بھی شامل ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران کو افزودگی کے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر ترک کرنا پڑے گا یا نہیں، کیونکہ ‘Axios’ نے اطلاع دی ہے کہ ایران کچھ عرصے کے لیے تین فیصد تک خالص یورینیم کی افزودگی کر سکے گا۔
معاہدہ نہ ہوا تو کشیدگی بڑھے گی
ایران کے ساتھ معاہدہ کرنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قابل اعتماد دوست اور مغربی ایشیا کے امور کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کی سفارتی ترجیحات میں شامل ہے۔ معاہدے کے تحت امریکا ایران پر عائد کچھ سخت اقتصادی پابندیاں ہٹا سکتا ہے جس کے بدلے میں ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو محدود یا ختم کر سکتا ہے۔ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو مغربی ایشیا میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے جہاں غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کی وجہ سے حالات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔