منی، میڈیم اور کنگ سائز امریکا…. حافظ شفیق الرحمن
منی امریکا (اسر ائیل) کی دسیسہ کاریوں سے اب کنگ سائز امریکا (یو ایس اے)بھی خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ یہ دلچسپ خبر 6 دسمبر 2021ء کے اخبارات میں شائع ہو چکی ہے کہ ’اسرائیلی سافٹ ویئر کی مدد سے
منی امریکا (اسر ائیل) کی دسیسہ کاریوں سے اب کنگ سائز امریکا (یو ایس اے)بھی خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ یہ دلچسپ خبر 6 دسمبر 2021ء کے اخبارات میں شائع ہو چکی ہے کہ ’اسرائیلی سافٹ ویئر کی مدد سے امریکی وزارت خارجہ کے سرکاری فون ہیک ہوئے ، برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق امریکی حکام پر یہ حملے اسرائیلی ٹیکنالوجی کے استعمال سے امریکا کو نشانہ بنانے کی سب سے بڑی کارروائیاں ہیں‘۔
یہ خبر پڑھتے ہی مجھے ان دنوں کی یاد آئی جب ایک امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈائومنٹ نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم پھیلائو کے حوالے سے جامع آرمز کنٹرول منصوبے وضع کرنا شروع کئے تو جوہری توانائی کی بین الاقوامی تنظیم کے اربابِ بست و کشاد ان منصوبوں کی تعریف میں رطب اللسان دکھائی دیے۔ یہ عجیب و غریب منصوبے تھے۔ بتایا گیا کہ ان کے تحت بڑی ایٹمی طاقتیں عالمی سلامتی کیلئے دوسرے ملکوں کو مراعات دیں گی۔ واضح رہے کہ عالمی سلامتی کی اکلوتی ضامن اور محافظ ہونے کی دعویدار عالمی طاقت آج تک ’’دہشت گردی‘‘ کی طرح ’عالمی سلامتی‘ کی جامع تعریف وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بظاہر ان منصوبوں کا مقصدِ وحید یہی تھا کہ کوئی بڑی ایٹمی طاقت کسی ایک اپنے حلیف ملک کو اس مفروضے کی بنیاد پر مراعات دے سکتی ہے کہ اسکی سلامتی معرض خطر میں ہے۔ اس سوال کا مسکت جواب آج تک سامنے نہیں آیا کہ کسی بڑی ایٹمی طاقت کے حلیف ملک کی سلامتی کے تحفظ کی آڑ میں یورینیم یا پلوٹونیم کے غلط ہاتھوں میں جانے کا احتمال باقی نہیں رہے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح بڑی ایٹمی طاقتوں کے ’’لاڈلے ممالک‘‘ اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر یورینیم اور پلوٹونیم کی بھاری مقدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے اور یوں آج وہ امن عالم کیلئے حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔ شاید ایسے ہی کسی منصوبے کے تحت امریکا نے اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی در پردہ منتقل کی۔ نتیجتاً اسرائیل خطے کی غیرا علانیہ جوہری ریاست کا روپ دھار گیا۔ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں پر عالمی طاقت اور عالمی اداروں کی مکمل خاموشی انکے دوہرے معیارات کی آئینہ دار ہے۔ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے جواب میں خطے میں موجود دیگر ممالک کو اس امر کا قطعی جواز حاصل ہو چکا ہے کہ وہ بھی اپنی سلامتی کو در پیش خطرات کے جائز عذر کا سہارا لے کر غیر روایتی ہتھیار تیار کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اگر وہ ایسا کریں تو ان ممالک کیخلاف عالمی طاقت اور عالمی ادارے محض اطلاعات کی بنیاد پر چڑھ دوڑنے میں ایک لحظہ کی تاخیر نہیں کرینگے۔ اس لشکر کشی کو سند جواز اس غیر مصدقہ اطلاع پر بھی فراہم کر دی جائیگی کہ ان ممالک کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ عراق پر یہی ہوّا کھڑ ا کر کے مارچ 2003ء میں امریکا برطانیہ اوراسکے حلیف مغربی ممالک نے لشکر کشی کی تھی۔ تقریباً 7 برس کے غیر مختتم بین الاقوامی فوجی آپریشن کے باوجود عراق کے کسی ہتھیاروں کے گودام سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی میزائل تو کجا ایک سوئی تک بھی ڈھونڈی نہ جا سکی۔ سب جانتے ہیں کہ عراق پر امریکا اور نیٹو ممالک کے ہمہ جہتی ہتھیاروں سے لیس ’’آپریشن ‘‘کے دوران ایک فلسطینی اطلاعاتی مرکز نے بین الاقوامی میڈیا کو یہ رپورٹ فراہم کی تھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون نے خارجہ اور دفاعی تعلقات کمیٹی کے خفیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’’اسرائلیوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ امریکا نے اسرائیلی حکام کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جب بھی کسی قسم کا خطرہ محسوس کریں، جوہری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرکے اسے دور کر دیں‘‘۔ عالمی قوانین کے مطابق ’’انڈر ورلڈ ‘‘سے ایٹمی استعداد حاصل کرنے کیلئے ڈیوائسسز اور مطلوبہ مواد حاصل کرنا اور چوری چھپے نیو کلیئر ہتھیار بنانا سنگین ترین جرم ہے۔ اس جرم کی مرتکب ریاستوں کو عالمی طاقت امریکا کے حکمران اور مغربی و امریکی دنیا کے تھنک ٹینکس کے چیفس سنگین ترین بین الاقوامی جرم سے تعبیر کرتے ہیں۔ عالمی اداروں، عالمی طاقت اور مغربی ممالک کا یہ دہرا پن ،یہ اعلانیہ تضاد اور ناقابل فہم دو رخہ پن امن عالم کیلئے ایک مستقل خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف تو ایسے ممالک کو جو در پردہ ایٹمی استعداد اور قابلیت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں، انہیں امریکی حکومتیں بلا سوچے سمجھے ’’بدمعاش ریاستیں ‘‘اور ’’بدی کے محور‘‘ قرار دینا اپنا استحقاق گردانتی ہیں اور دوسری طرف انہوں نے اپنے لے پالک اسرائیل کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری بم اور جوہری ہتھیارتیار کرنے کی استعداد میں جس حد تک چاہے کمال مہارت حاصل کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی ایسے ادارے پاکستان، لیبیا، ایران اور شام پر بہ اصراروبہ تکرار دبائو ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اپنی ایٹمی تنصیبات کے دروازے عالمی معائنہ کاروں کے لیے کھول دیں۔ وہ ان کے طبعی معائنے کو اپنا فرض منصبی جانتے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے کم از کم 5 عشرے گزر جانے کے باوجود اس امر کا جائزہ تک لینے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اسرائیل چور دروازوں سے گزشتہ کئی عشروں سے جوہری توانائی کی تعمیر و تخلیق میں معاون آلات اور مواد خرمن در خرمن اور انبار در انبار جمع اور ذخیرہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کیلئے یہ اسباب و وسائل ’’من و سلویٰ ‘‘ کی طرح آسماں سے نازل نہیں ہوئے بلکہ اسے یہ تمام نوازشات امریکا اور مغربی ممالک کے مشترکہ ’دستِ جودو سخا‘ نے عطا کی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس 1990ء میں کم از کم دوسو نیو کلیئر وارہیڈ موجود تھے۔ لیکن سی ٹی بی ٹی پر دستحط کرنے کی وجہ سے وہ ان کا تجربہ نہیں کرسکتا تھا اور اسے موقع ملا بھی تو کب، جب 1998 ء میں بھارت نے پو کھران میں ایٹمی دھماکے کئے۔ عالمی ایجنسیوں کے پاس اسکے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ ان دھماکوں میں سے کم ازکم دو تجربے اسرائیلی ایٹم بموں کے تھے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے سابق صدر اور بھارتی ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام 1998ء کے ان ایٹمی تجربات سے قبل خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ بھی کر چکے تھے اور اگر یہ سب کچھ غلط ہے تو پھر بھارت کے پاس یقینا پوکھران کے دھماکوں سے دو ہفتے قبل اسرائیلی 130 سی طیاروں کی بھارت آمد کا کوئی نہ کوئی جواز تو ضرور موجود ہوگا؟
یہ حقیقت کسی بھی باخبر اور با شعور شہری سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عرب ممالک بر س ہا برس سے یہ مطالبہ دہراتے چلے آ رہے ہیں کہ عالمی معائنہ کار اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کا بھی معائنہ کریں۔ مقام تاسف ہے کہ دنیا کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کا ذمہ لینے والے مغربی ممالک اس باب میں ہزار فیصد جانبداریت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک این پی ٹی پر دستخط کر چکے ہیں، جو یقینا خوش آیند ہے لیکن اس گلوبل ویلج کے امن پسند شہری یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تخفیف اسلحہ کا نعرہ تخلیق کرنے والی قوتیں اس معاہدے پر دستخط کرنے سے کیوں گریزاں اور مجتنب ہیں۔ عالمی برادری جاننا چاہتی ہے کہ کیا اسرائیل عالمی معاہدوں سے بالاقوت ہے؟ کیا اسے عالمی معاہدوں کا پابند نہیں بنایا جا سکتا؟ ان سوالوں کا جواب یقینا اثبات میں نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھراقوام متحدہ، سلامتی کونسل، جنیوا کنونشن ، بین الاقوامی عدالت انصا ف اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی ایسے اداروں کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟