شکریہ پاکستان ۔۔۔۔ طیبہ بخاری
حکومتوں کی برائی یا تنقیدکبھی کا سلسلہ جاری رکھیں ، بلکہ تیز تر کرتے جائیں۔۔۔ رکئے گا مت ۔۔۔۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔۔۔نا ہی کوئی روکنا چاہتا ہے
حکومتوں کی برائی یا تنقیدکبھی کا سلسلہ جاری رکھیں ، بلکہ تیز تر کرتے جائیں۔۔۔ رکئے گا مت ۔۔۔۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔۔۔نا ہی کوئی روکنا چاہتا ہے ۔۔۔ایک دوسرے کی مخالفت یا سیاسی دشمنی میں اندھا دھند بھاگیں اور بھاگتے رہیں ۔۔۔۔ ملک کے اندر اور کبھی ملک سے باہر ۔۔۔۔۔۔کوئی نہیں روکے گا ۔۔۔۔نا ہی کوئی روکنا چاہتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس تیز رفتاری میں ملک کو بخش دیں ۔۔۔۔ اسے بُرا بھلا اور ناکام ثابت کرنے کی کوشش مت کیجئے گا ۔۔۔۔آپ کو ہر محب وطن روکے گا ۔۔۔۔اور روکنا جانتا بھی ہے ۔۔۔۔۔ وطن عزیز کی تعریف کرنا سیکھ لیں۔۔۔۔اس میں کسی کا اور آپ کاکچھ نہیں جائے گا۔۔۔
اور اُس وقت تعریف تو بنتی ہی ہے جب کوئی دوسرا ملک یا بڑا ملک تعریف کرے۔۔۔
تمام تر بُرے اقتصادی حالات ، قرضوں ، خطرات اور خدشات میں گھرے پاکستان نے طالبان نہیں افغانستان اور اس کے 4کروڑ سے زائد عوام کو بھوک اور موت سے بچانے کیلئے اسلام آباد میں مسلم اُمہ کو جمع کیا ۔ پاکستان نے اپنے مو¿قف سے ثابت کیا کہ بھلے معیشت ”ریورس گیئر “ میں ہو لیکن خطے میں اُسکی امن پسند پالیسیاں ”فُل گیئر “ میں ہیں ۔ پاکستان نے 40 سال بعد اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی۔او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس میں 57 اسلامی ممالک کے مندوبین کےساتھ ساتھ دیگر ممالک کے مبصرین نے بھی شرکت کی تھی۔
او آئی سی کے اس تاریخی ، بروقت اور کامیاب اجلاس کی بدولت امریکہ جہاں سے کبھی”ایک فون کال “ کے ”انتظار“ کو میڈیا میں موضوع بحث بنایا جاتا رہا اور خارجہ پالیسی کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے وہاں سے یہ بیان آنا کہ”امریکہ پاکستان کا مشکور ہے ۔“امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا یہ بیان”ناقدین “ بار بار پڑھیں کہ ” افغانستان پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس اجتماعی عزم اور عمل کی بہترین مثال ہے۔پاکستان نے عالمی برادری کو افغان عوام کی حمایت کےلئے تعاون کی دعوت دی۔ اجلاس کی میزبانی اور عالمی برادری کو دعوت دینے پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔“ بلنکن کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی سے خطاب میںیہ بھی کہہ چکے ہیں کہ” افغانستان کے مستقبل پر امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا آئندہ ہفتوں میں پاکستان سے تعلقات پر توجہ مرکوز رکھیں گے،جائزہ لیں گے کہ افغانستان میں امریکہ کیا کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے کیا توقعات ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ جلد پاکستان سے امریکہ کے تعلقات پر نظرثانی کرنے جا رہی ہے۔ “
پاکستان میںافغان عوام کی فلاح و بہبود کیلئے سب ایک پیج پر ہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ افغانستان پر بین الاقوامی اتفاق رائے کی ضرورت ہے وہاں انسانی المیے کو جنم لینے سے روکنا ہو گا ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل ہیڈکوارٹر ( جی ایچ کیو ) میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ سے” اہم ملاقات“ میں واضح کہہ چکے ہیں کہ ”دنیا اور خطہ غیرمستحکم افغانستان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔“ملاقات کے دوران آرمی چیف نے افغان انسانی بحران سے نمٹنے کےلئے عالمی اتحاد پر زور دیا، امریکی نمائندے تھامس ویسٹ نے افغانستان سے متعلق پاکستان کے کردار اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سے متعلق پاکستانی کاوشوں کی تعریف کی۔امریکی نمائندے نے ہر سطح پر پاکستان کیساتھ سفارتی تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا اور او آئی سی اجلاس کے انعقاد پر پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
یہ پاکستان کی جانب سے طالبان کیلئے نہیں بلکہ بار بار انسان دوستی کے حق میں اُبھرتی ہوئی آواز کا نتیجہ ہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے افغانستان کو امدادی اشیاءبھیجنے پر پابندی اٹھانے کیلئے قرار داد منظور کر لی ہے ، قرار داد میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ افغانستان میں امدادی کام کرنا چاہے تو اس پر پابندی نہیں ہو گی بشرطیکہ امدادی فنڈ طالبان حکومت کے حوالے نہ کیا جائے ۔
مزید برآںکینیڈا نے بھی افغانستان کیلئے امداد کا اعلان کر دیا ہے، کینیڈا افغانستان کو 56 ملین ڈالر امداد دے گا یہ امداد 2022ء میں دی جائے گی۔ جاپان بھی افغانستان کیلئے100ملین ڈالر مالیت کا پیکج دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ پیکج افغانستان میں خوراک،پانی اورصحت کیلئے استعمال ہوگا۔جاپان اس سے قبل بھی 5 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا ہنگامی عطیہ افغانستان کو فراہم کر چکا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اس مشکل وقت میں افغانستان کی امداد کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے انسانی بنیاد پر افغانستان کےلئے 5 ارب روپے امداد کی منظوری دے رکھی ہے جس میں 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور ادویات و میڈیکل کا سامان شامل ہے۔روس کی جانب سے انسانی امداد پر مشتمل سامان کی پہلی کھیپ کابل پہنچ چکی ہے۔ چند دنوں کے دوران ایران، پاکستان، ازبکستان، چین اور قطر سمیت کچھ ممالک نے افغانستان کو انسانی امداد اور طبی سامان کی فراہمی میں تعاون کیا ہے جبکہ کابل ایئرپورٹ کو فعال بنانے پر ترکی اور قطر میں اتفاق ہوگیا ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ اب اسے توسیع پسندانہ عزائم کہا جائے یا خطے کو ہر وقت خطرات سے دوچار رکھنے کی پالیسی….؟ کچھ بھی کہہ لیں لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ مودی ڈاکٹرائن خطے کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے ۔۔۔۔؟ کیا کرنا چاہتی ہے اور کیا کر رہی ہے ۔۔۔؟ امن کے حوالے سے اس کا نظریہ اس کے اقدامات کیا ہےں ۔۔۔؟ جب پاکستان میں او آئی سی اجلاس ہو رہا تھا تو بھارت میں وسطی ایشیا ڈائیلاگ ہوئے جن میں 5 وسطی ایشیائی جمہوریہ ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ وہاں بھی افغانستان موضوع بحث تھا ، ڈائیلاگ کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ بیان میں افغانستان میں دہشتگردی کیخلاف ٹھوس اقدامات اور قریبی مشاورت جاری رکھنے پر” اتفاق“ کیا گیا۔ اس سے زیادہ وہاں سے کوئی اور قابل ذکر یا قابل فکر کوئی خبر یا اپ ڈیٹ سامنے نہیں آئی نہ ہی عالمی سطح پر اس ڈائیلاگ کے بارے میں” تعریفی کلمات“ ادا کئے گئے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں 41سال بعد پوری مسلم امہ جمع ہوئی اسلام آباد میں 20 ممالک کے وزرا خارجہ، 10 نائب وزیر خارجہ سمیت 70 وفود پہنچے۔وزرائے خارجہ اجلاس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے افغانستان کیلئے 1 ارب ریال امداد کا اعلان کیا….
کہیں کوئی یہ سب کامیابی دیکھ رہا تھا اور اُسے یہ سب” ہضم “نہیں ہو رہا تھا…کیونکہ کہاں 5 وسطی ایشیائی ریاستیں اور کہاں 20 اسلامی ممالک اور 70 وفود کی شرکت ….شاید یہی وجہ ہے کہ مودی ڈاکٹرائن نے پاکستان، چین سے خطرات کا بہانہ بنا کر بھارتی پنجاب سیکٹرمیں میزائل دفاعی نظام لگانا شروع کر دیا ۔خودبھارتی میڈیا کے مطابق میزائل دفاعی نظام کا پہلا سکواڈرن پنجاب سیکٹر میں لگایا جا رہا ہے۔روس نے بھارت کو ایس 400 میزائل دفاعی نظام کی فراہمی شروع کر دی ہے دفاعی نظام کے پہلے سکواڈرن کی ترسیل رواں ماہ ہی مکمل ہو جائے گی….
جنوبی ایشیاءمیں سلگتے مسائل کے حل کیلئے سب سے پہلے تو یہ کرنا ہو گا کہ سب کو جنگ اور ہتھیاروں سے گریز کرنا ہو گا، اسلحے کی دوڑ ختم کرنا ہو گی، امن کی راہ اپنانی ہو گی، جو بھی ملک امن کی بات کرے اسے کمزوری نہ سمجھا جائے،دیرینہ تنازعات پہ مذاکرات کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے اور اس سلسلے کو وسیع کیا جائے. …..کیا مودی ڈاکٹرائن بڑے ملک میں برسر اقتدارہونے کے ناطے یہ کر سکتی ہے …؟
پاکستان کی امن پسندی اور افغانستان میں انسانی المیے کو روکنے کی کوششوں پر اتنا کہنا تو بنتا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔” شکریہ پاکستان “