”محکمہ پولیس“ آج بھی نمبر لے گیا! کرپشن میں!….علی احمد ڈھلوں
ظاہر ہے! جس نے کروڑوں ڈالر کسی ملک میں جھونکنے ہیں وہ سب سے پہلے وہاں کے زمینی حقائق کو جانچے گ
کسی ریاست میں کرپشن تمام برائیوں کی ماں ہوتی ہے، یہ دھیمک کی طرح پورے ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے، جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ملک ترقی کرے! ایسا ممکن نہیں ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے، انٹرنیشنل ادارے ہماری اس ”کارکردگی “ کو نمایاں کوریج دے رہے ہیں۔ بلکہ یہاں تک اخبارات سرخیاں لگا رہے ہیں کہ Due to Corruption Pakistan, is not fit for investmentیعنی کرپشن کی وجہ سے پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بہتر ملک نہیں ہے۔ ظاہر ہے! جس نے کروڑوں ڈالر کسی ملک میں جھونکنے ہیں وہ سب سے پہلے وہاں کے زمینی حقائق کو جانچے گا، وہ سوچے گا کہ اگر اُسے کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہوا تو وہ کس سے رجوع کرے گا؟ عدلیہ سے؟ پولیس سے یا کسی اور ادارے سے۔ لیکن یہ سب اگرپہلے سے ہی کرپشن کے حوالے سے لتھڑے ہوئے ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی انویسٹمنٹ کے لیے اُس ملک کا رُخ کرے گا۔
اور پھر حد تو یہ ہے عدم توجہی کے باعث یہ ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، جس کا ثبوت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ ہے، جس کے مطابق محکمہ پولیس کو سب زیادہ بدعنوان محکمہ قرار دیا گیا ہے۔یہ محکمہ گزشتہ سال کے سروے میں بھی کرپشن میں سرفہرست تھا۔ سندھ اور پنجاب میں بھی پولیس ہی اول نمبر کا کرپٹ ادارہ ہے جبکہ خیبر پی کے میں یہ تیسرے اور بلوچستان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عدلیہ اور محکمہ تعلیم بھی بدعنوانی میں وکٹری سٹینڈ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ 21 برسوں سے جائزہ مرتب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے والوں کا گمان ہے کہ ان کے سروے کے نتائج کو مختلف سرکاری محکمے اصلاحات کے نفاذ کے لیے استعمال کریں گے جس سے بدعنوانی کم کرنے اور عوام کی زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی مگر زمینی حقائق اس امکان کے برعکس اس تصور کو راسخ کئے ہیں کہ پاکستان میں عمل تطہیر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اب کرپشن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو ہم سب اس کی وجہ ہیں کہ ہم نے اپنے اخراجات اس قدر بڑھا لیے ہیں کہ ہماری آمدنی اخراجات سے کم ہے۔ تبھی ہمارا دھیان ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانے کی طرف رہتا ہے۔ اور پھر کرپشن کابراہ راست تعلق مہنگائی سے بھی ہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے اور جب مہنگائی زیادہ ہوگی تو ہر سرکاری افسر و ادارہ یا ہر شخص اپنا ریٹ دوگنا کردے گا اور پھر جو بندہ کرپشن نہیں بھی کرتا وہ بھی کرنا شروع کردے گا۔ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ایک سی ایس پی آفیسر کی تنخواہ اگر ایک لاکھ روپے رکھی جائے اور اُس کے اخراجات 4لاکھ روپے کے ہوں تو وہ باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ اور ایسے حالات میں تو یہ بات اور بھی پختہ ہو جاتی ہے کہ اُس کے پاس کروڑوں روپے کے اختیارات بھی ہوتے ہیںتو پھر وہ کرپشن نہ کرے تو اور کیا کرے۔
آپ محکمہ پولیس کی مثال لے لیں، جسے ”پہلا نمبر“ دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ پولیں کے وسائل کتنے ہیں اور اس سے توقعات کی فہرست کتنی طویل ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے کئی ممالک سے بڑا صوبہ ہے۔ اٹک سے لیکر صادق آباد اور مشرقی سرحد سے لیکر کچے کے علاقے اور دریائے سندھ کے کنارے تک امن و امان کی صورتحال پنجاب پولیس کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت پنجاب پولیس میں ایک اہلکار 602 شہریوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جبکہ لاہور میں 513 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار دستیاب ہے۔ یہ نفری معیاری پولیسنگ کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا تو ذکر چھوڑیں ہمسایہ ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں 198 شہریوں جبکہ ممبئی میں294 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔ لندن میں یہی تناسب 1:157 ہے۔ لاہورکی آبادی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 11لاکھ 26ہزار 285 ہے۔ علاوہ ازیں 40 ہزار کے لگ بھگ روزانہ دیگر شہروں سے لوگ یہاں آتے جاتے ہیں۔ اس آبادی کیلئے لاہور پولیس کی نفری 30ہزار ہے (ظاہر ہے کہ اس نفری میں ڈرائیور، کلرک اور دیگر نان کمبیٹ عملہ بھی شامل ہوگا)۔ اسکے برعکس دہلی جو لاہور جتنا ہی شہر ہے وہاں پولیس کی نفری 82 ہزار ہے۔ اب ذرا وسائل کی بات ہو جائے۔ پنجاب میں پولیس پر سالانہ 8.44 ڈالر فی کس اخراجات کئے جاتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں یہ تناسب 15.9 ڈالر، ترکی میں135 ڈالر اور لاہور میں 7.42ڈالر ہے جبکہ لندن پولیس کو فی کس اخراجات 754 ڈالر سالانہ دیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہماری پولیس فورس کرپشن نہ کرے تو اور کیا کرے؟
میرے خیال میں اگر ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو ان اداروں میں ایک عام آفیسر کی تنخواہ سے لے کر اخراجات کا تخمینہ لگائے اور اُس کے مطابق اُسے تنخواہ دی جائے تو آدھی سے زیادہ کرپشن کا صفایا ہو جائے گا۔ لیکن یقین مانیں ایسا لگتا ہے کہ کرپشن ہماری ”ضد“ بن چکی ہے۔ کوئی بھی ”ترقی پسند“ بننے کو تیار نہیں ہے، ترقی پسند یعنی مستقبل سے پیار کرنے والا۔ فیض احمد فیض سے ڈاکٹر عارفہ سیدہ نے پوچھا کہ ترقی پسند کسے کہتے ہیں؟ یہ اتنا جھگڑا کیوں ہے؟ فیض صاحب سوال سن کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہا ”جو بھی مستقبل پر یقین رکھتا ہے‘ وہ ترقی پسند ہے“۔ یہ جو مستقبل پر یقین ہے اسی کی ہمارے ہاں کمی ہے۔ ہمیں جتنا اپنے ماضی پر یقین ہے، اتنا اپنے حال پر بھی نہیں۔ ماضی پرست ہمیشہ ضدی ہوتے ہیں۔ ضد کا مقابلہ صرف وہی چیز کر سکتی ہے جو آنے والے دن کا انتظار کر سکتی ہے اور جسے صبر کرنے کی صلاحیت میسر ہوتی ہے۔ ہماری سیاست اور سیاست دانوں کا یہی المیہ ہے کہ ہم ترقی پسند ہیں نہ ہمیں مستقبل پر یقین ہے۔ ہم ماضی کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں یا پھر حال میں جینا چاہتے ہیں۔اس لیے ہمیں ماضی سے نکلنا ہوگا، کرپشن جو ہوگئی سو گئی اب اپنے بچوں کے لیے اچھی زندگی کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جو Self Assessment کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذامحکمہ پولیس میں ایسے افسران کی ضرورت ہے جو پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ ”ترقی پسند“ بھی ہوں۔ دقیانوس افسران جو ماضی پر یقین رکھتے ہیں اُن کی کسی صورت بھی کمی نہیں ہے۔
پھر کرپشن کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ جن اداروں کو کرپشن روکنے کے لیے بنایا گیا ہے، وہ خود بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ جیسے اینٹی کرپشن یا نیب ایسے ادارے ہیں جن پر سب سے بڑا الزام ہی ”سیاسی “ ہونے کا ہے۔ بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ خود نیب ہے، کیوں کہ نیب ابھی تک کسی بڑی مچھلی کو سزا نہیں دے سکی، کسی سیاستدان سے ریکوری نہیں کر سکی، اربوں روپے کے بے نامی اکاﺅنٹس پکڑے گئے مگر مجال ہے کہ کسی پر انکوائری لگی ہو کہ یہ کس کے پیسے تھے، اور کون کون جمع کروا کر منی لانڈرنگ کرتا رہا، حالانکہ یہ اتنے سادہ کیسز ہیں کہ عام آدمی کو بھی سمجھ آجائے کہ جب اکاﺅنٹ کھلا، اُس وقت کے برانچ منیجر کو پکڑا جائے، کیوں کہ اُس کی مرضی کے بغیر کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہو ہی نہیں سکتیں، اور پھر جب اتنی بڑی بڑی ٹرانزیکشنز ہوتی رہیں، اُس وقت کے آفیسرز کو پکڑا جائے یا افسران کو پکڑا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن اگر ادارے ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور حکمرانوں و سیاستدانوں کے دست راست بن جائیں تو پھر سب لوگ اپنا اپنا مال بٹورنے میں لگ جاتے ہیں اور ادارے خود کرپٹ ہو کر آپ کو راستہ دکھاتے ہیں کہ پلی بارگین کر لو یا اداروں سے بالا بالا مک مکا کر لو یا بیرون ملک بھاگ جاﺅ۔ اور پھر اسی وجہ سے عوام، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے اندر سے خوف ختم ہو گیا ہے، کہ اگر وہ کرپشن کریں گے تو اُنہیں کوئی چیک کرنے والا بھی موجود ہوگا۔
بہرکیف مثالی معاشرے وہی ہیں جہاںبدعنوانی کو سماجی سطح پر ایک لعنت شمار کیا جاتا ہے، یہی لاشعوری ترنیت سماجی سطح پر بدعنوانی کے لیے سب سے بڑی روک ثابت ہوتی ہے۔ہمارے سماج میں بھی فرد کی تربیت اسی نہج پر ہونی چاہیے کہ بدعنوانی اور رشوت ستانی کے لیے نفرت قوم کی گھٹی میں شامل ہو۔یہ تبھی ممکن ہوگا جب جب کسی ریاست میں اداروں کا ڈر ہو ، ملک کی رٹ مضبوط ہو، اخراجات اور آمدن کا توازن قائم ہو۔لہٰذااگر حکومت چاہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوتو سب سے پہلے وہ اپنی رٹ مضبوط کرے، طاقتوروں کو سزا دے، چیک اینڈ بیلنس کا نیا سسٹم متعارف کروائے، اور لوگ کا انصاف کے حوالے سے اعتماد بحال کروائے، اور اس سے بھی بڑھ کر عوام کا مورال بلند رکھے تاکہ یہ ملک ترقی کر سکے۔ تاکہ سات عشروں میں ہر شعبے میں سرایت کرجانے والے کرپشن کی ہلاکت خیزی سے بچاﺅ کے لئے پورے سسٹم کی اوورہالنگ ہوسکے۔ اس کے لئے وسیع مشاورت اور جامع منصوبہ بندی سے ایک طویل مدتی لائحہ عمل کا متفقہ میثاق بھی ضروری ہے جس کے لئے تمام سیاسی و سماجی مکاتب فکر کے صاحبان دانش کو مل کر کام کرنا اور سازگار فضا بنانا ہوگی تاکہ یہ ملک مزید پیچھے نہ چلا جائے اور ہم منہ پھر بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں! اور جہاں تک محکمہ پولیس کی بات ہے تو اُس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔ جب ملک سے بتدریج کرپشن ختم ہونا شروع ہوگی تو یہ ادارہ بھی ٹھیک ہو جائے گاکیوں کہ جب بھی ہوتا ہے پورا درخت سر سبز ہوتا ہے، ایک شاخ یا ایک پتہ اکیلا کبھی سرسبز نہیں رہ سکتا!