قائد اعظم سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ… مشتاق رضوی
سیاست میں بھی قدم رکھا یہ وہ دور تھا جب انگریز سامراج نے برصغیر پاک و ہند پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو استحصالی نظام میں جکڑا ہوا تھا
قائداعظم بنیادی طور پر ایک وکیل تھے اور انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وکالت کے پیشے سے کیا انگلستان سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپسی پر کراچی سے ہی وکالت کا آغاز کیا لیکن یہاں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اس لیے محمد علی جناح نے بمبئی کا رخ کیا جہاں کامیابی اور کامرانی اور شہرت آپ کی منتظر تھی آپ نے قانون کے میدان میں جلد ہی شہرت حاصل کر لی اس کے ساتھ ہے سیاست میں بھی قدم رکھا یہ وہ دور تھا جب انگریز سامراج نے برصغیر پاک و ہند پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو استحصالی نظام میں جکڑا ہوا تھا تاجدار برطانیہ نے سیاسی اصلاحات کی آڑ میں انگریزی نظام سیاست کو برصغیر پاک و ہند میں مکمل طور پر رائج کرنے کے اقدامات شروع کر دیے تھے مسلمان انگریزی اور مغربی تعلیم سے دور تھے اسی لئے انگریزی دستور قوانین سے ناآشنا تھے مکار ہندو بنیا نے 1885ء میں ایک انگریز مسٹر اے او ہیوم کی تشکیل کردہ سیاسی جماعت کانگریس کو اپنی جماعت بنا کر سیاسی نظام میں کے اکثریتی تعداد کے سبب ہندوستان پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جناح نے اپنی ابتدائی سیاست کا آغاز متحدہ ہندوستان میں رہنے والے ھندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوششوں سے کیاتھا جس کی بنا پر جناح ” ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے 1916ء میں آپ کی کوششوں سے لکھنؤ میں دونوں سیاسی جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں پہلی بار ہندوؤں نے مسلمانوں کے علیحدہ وجود کو تسلیم کیا جو کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد تھا اسی میثاق لکھنو میں جناح کی سیاسی بصیرت اور تدبر کے نتیجے میں مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کو منوایا گیا جو کہ جناح کی ایک تاریخی سیاسی کامیابی تھی اور یہ ہندوستان کے محکوم اور غلام مسلمان قوم کے حقوق کے تحفظ میں عملی اقدامات کا آغاز تھا جناح نے محلاتی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور ہندو کی چا نکیہ سیاست کا مقابلہ حق و صداقت اور اصول پسندی سے کیا حالانکہ قائد اعظم کو ان کے عظیم مقصد میں ناکام بنانے کیلئے ان کی کردار کشی اور قتل کرنے کی مذموم سازشیں بھی کی گئیں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو کانگریس کا ہمنوا بنا ہوا تھا قائد کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے دوسری طرف انگریزوں کے پروردہ غداروں کو جاگیریں عطا کرکے اور اعلی عہدوں پر فائز کر کے غریبوں پر مسلط کر دیا تھا وہ بھی حریت پسندی کے خلاف تھے جبکہ فریب ،دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی ہندو کی سرشت و فطرت اور سیاست میں شامل رھی ہے تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ میثاق لکھنو کے کچھ عرصے بعد کانگریس نے معاھدہ لکھنو سے رو گردانی کی اور مسلم دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے 1928ء میں نہرو نے اپنے نکات پیش کئے جس کے جواب میں 1929ء میں جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے جو کہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جناح کے چودہ نکات ان کی سیاسی بصیرت کا عکاس ہیں ان نکات میں ہندوستان میں آئندہ کے سیاسی نظام کا مکمل فریم ورک دیا گیا تھا اس وقت کے ہندوستان کے معروضی سیاسی حالات کا حل بھی انہی نکات میں مضمر تھا قائد اعظم نے ہندوستان میں موجود دیگر قوموں کا سیاسی مستقبل بھی متعین کیا یہ حقیقت آج سکھ قوم برملا تسلیم کرتی ہے کہ اگر اس وقت سکھ قائد اعظم کے مشورے پر عمل کرتے اور آپ سے سیاسی رہنمائی حاصل کر تے تو وہ آج غلام اور محکوم قوم بن کر نہ رہتے تاج برطانیہ نے ہندوستان کے سیاسی حل کی تلاش میں کئی مشن اور وفود ھندوستان روانہ کئے ھندو بنئے نے انگریز مصالحت کاروں کو ہر موقع پر گمراہ کیا اور انگریز حکمرانوں کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اس کی آڑ میں مسلم کش فسادات کرائے گئے ہندوستان کی عبوری حکومت کے دوران ھندوؤں نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے حقوق کا استحصال کیا اس سے قبل تقسیم بنگال کا تلخ تجربہ سے بھی مسلمان دوچار ہوئے ان کڑے اور مشکل ترین حالات میں قائداعظم نے اپنی غیر متزلزل قیادت میں مسلمانوں کو متحد کیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر اسے ایک بڑی عوامی طاقت بنا دیا جس کی بنا پر انگریز حکمران اور کسی بھی سیاسی معاملے میں مسلم لیگ کو ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتے تھے ہندوؤں نے ایک پرزور پروپیگنڈہ کیا ہوا تھا کہ اکانگریس ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن قائد اعظم نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے کانگریس کے اس دعوے کو باطل ثابت کرکے دکھایا تاج برطانیہ نے ہندوستان میں تقسیم ہند سے قبل ایک عبوری حکومت تشکیل دی جس میں کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کو بھی وزارتوں میں شامل کیا گیا اس وقت کے سیاسی معاہدے کے تحت مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دی جانی تھی لیکن انگریزی سامراج نے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کانگریس کو حکومت سازی کی دعوت دی لیکن اس کے باوجود قائد اعظم نے کانگریس کے لئے سیاسی میدان خالی نہ چھوڑا قائد اعظم نے اپنے پانچ مسلم لیگی ساتھیوں کو کابینہ میں شامل کرایا اس کابینہ میں ہندوؤں نے وزارت خزانہ غیر اہم سمجھا اور مسلم لیگ کو یہ وزارت پیش کی قائد نے اپنے سیاسی تدبر اور دوراندیشی اور بصیرت کو استعمال کیا جس کی بناء پر شہیدملت لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ بنایا گیا جنہوں نے جب غریبوں کا بجٹ پیش کیا تو ہندو بنیا اپنا سر پیٹ کر رہ گیا قائد اعظم نے اپنی کامیاب سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں انگریزوں کو ہندوستان کی تقسیم پر مجبور کردیا آپ نے انگریز حکومت کو انگریزی بنائے ھوئے قانون اور آئین سے مات دی قائد اعظم جمہوریت کے حقیقی علمبردار تھے انہوں نے 23 سالہ بے مثال جمہوری جنگ لڑی اس جنگ میں قائد اعظم کے پاس نہ کوئی بڑی مسلح سپاہ تھی نہ دولت کے انبار تھے انہوں نے ایک مظلوم غلام قوم کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی اور ھندوؤں کے غلبہ سے نجات دلائی اور ووٹ کی طاقت سے پاکستان بنایا
قائد اعظم سچے اور کھرے سیاستدان تھے اصولوں کے سخت پابند تھے قانون کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں نے آپ کے سیاسی کردار کو عروج بخشا دیانتداری ،سچائی آپ کی اعلی کردار کی نمایاں وصف تھیں آپ نے سیاست میں فریب اور جھوٹ کا کبھی سہارا نہ لیا آپ اپنے قول کے سچے اور پکے تھے آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا آج کی سیاست میں جھوٹ بےایمانی ،اقتدار پرستی اور موقع پرستی کو لازمی سمجھا جاتا ہے وفاداری تبدیل کرنے والے کو بھی کامیاب سیاستدان سمجھا جاتا ھے لیکن قائد نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے سیاستدان تھے قائد کو دنیا کی کوئی طاقت نہ خرید سکی قائد اعظم قول کے سچے اور پکے تھے ان کی قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا وہ عوام کے مخلص راھنما تھےعمل پیہم ،تنظیم اور یقین محکم نے ہمیشہ دنیا میں آپ کو سرفراز اور ممتاز بنا کررکھا ھے اسی لئے ھر سیاسی محاذ پر کامیابی و کامرانی آپ کا مقدر بنی قائد کاسیاسی کردار آج بھی سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ھے جس کی تقلید کر کے سیاستدان اور عوام قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرسکتے ھیں
اے قائد اعظم رح
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
آمین ثم آمین