اس بار ”پالیسی ساز“ استعمال ہوگئے!(تلخیاں……علی احمد ڈھلوں )
اپریل 2022ءمیں جب پی ڈی ایم برسراقتدار آئی تو اُس وقت حالات اس قدر سنگین نہیں تھے، مہنگائی تھی مگر 45فیصد نہیں بلکہ 13فیصد تھی۔
ویسے تو ہم سمجھتے تھے کہ ”پالیسی ساز“ سیاستدانوں کو استعمال کرتے ہیں مگر اس دفعہ تو سب کچھ اُلٹ ہوگیا ہے۔ لگتا ہے کہ ڈیڑھ سالہ حکومت والے سابق حکمران پالیسی سازوں کو استعمال کرکے نکل گئے ہیں۔اپریل 2022ءمیں جب پی ڈی ایم برسراقتدار آئی تو اُس وقت حالات اس قدر سنگین نہیں تھے، مہنگائی تھی مگر 45فیصد نہیں بلکہ 13فیصد تھی۔ لیکن پھر ایک ٹولہ ملک پر مسلط ہوا، اس ٹولے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے متعدد وزیر اُس وقت ضمانتوں پرتھے۔ پھر انہوں نے سب سے پہلا کام اپنے اوپر تمام تر مقدمات کی صفائی کروائی، پھر تگڑی کرپشن کی ، کمیشنیںکھائےں اور چلتے بنے ۔ حالانکہ قارئین کو یاد ہو گا کہ راقم نے رواں ماہ کے آغاز ہی میں یعنی 5اگست کو ایک کالم تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا کہ ”کیا حکمران ملک میں سول نافرمانی چاہتے ہیں؟“ یہ بات میں نے اسی پیرائے میں کی تھی کہ کس طرح عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ کیوں کہ سابقہ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کس طرح عوام کو ریلیف دیا جائے، بلکہ وہ تو اس موڈ سے آئے ہی نہیں تھے کہ عوام کے لیے کچھ کیا جائے ، بلکہ وہ تو ڈیڑھ سال کی عیاشی کرکے، اپنے مقدمات ختم کرکے پوری کی پوری قیادت ملک سے باہر جا چکی ہے۔انہوں نے اسی اثناءمیں تمام مقدمات معاف کروالیے۔ حتیٰ کہ اُن مقدمات میں بھی ریلیف لیا جن میں وہ مفروری کاٹ رہے تھے۔ انہوں نے ڈیڑھ سال میں خوب دیہاڑیاں بھی لگائیں، لیب ٹاپ سکیم میں کمیشن کھائے، مفت آٹا سکیم میں انہوں نے اربوں روپے کھائے اور عوام کے حصے میں ناقص گندم آئی۔ حتیٰ کے ایک سابقہ جرنیل نے بھی الزام لگایا کہ ایک سکیم میں شہباز شریف نے 45ارب روپے کی کمیشن حاصل کی ہے۔ خیر اس ساری مارا ماری میں فیصلہ سازوں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔لہٰذابھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ بھوکے کو بے حال کیے رکھتی ہے۔ حکمران بلکہ سبھی سیاستدان بھوک مٹانے کی طلب میں اس قدر بے حال اور بدمست ہو چکے ہیں کہ انہیں عوام کے گھروں میں بھوک اور فاقوں کے ڈیرے نظر ہی نہیں آتے۔ ان کے محلات‘ شاہانہ طرزِ زندگی‘ ملکی و غیرملکی ہوش ر±با اثاثے‘ سبھی عوام کی بھوک کے مرہونِ منت ہیں۔ جب تک عوام بھوکے مرتے رہیں گے‘ یہ پھلتے پھولتے اور ترقیوں کے پہاڑ سر کرتے رہیں گے۔ ان کی خوشحالی عوام کی بدحالی سے مشروط جو ٹھہری۔ خطِ غربت روز ایک نیا ریکارڈ بنا رہا ہے۔ پسماندہ بستیوں میں ننگے پیر‘ ننگ دھڑنگ معصوم بچے کیا جانیں کہ ان کے حصے کی روٹی اور بنیادی سہولیات کس کس کی شکم پروری کر رہی اور کس کس کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ جابجا بھوک کا رقص پالیسی سازوں کے لیے وہ مجرب نسخہ ہے جس سے یہ نکھرتے اور سنورتے ہیں۔ ان سبھی کو اس رقص و سرور کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ ناچنے والے بھوکے ہوں تو ان کی آہ و بکا حکمرانوں کی سماعتوں کے لیے سریلے ساز بن جاتی ہے۔
اور پھر سب نے دیکھا کہ پوری قوم اس وقت ان تمام مسائل کا ذمہ دار پالیسی سازوں کو ٹھہرا رہی ہے۔جبکہ گزشتہ ڈیڑھ سال بھی پالیسی سازوں کو ہی غلط کہا گیا ، لہٰذااگر سول نافرمانی ہوتی ہے تو اس کا سامنا کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والی قوتوں نے کرنا ہے۔وہ مان لیں کہ اس بار وہ استعمال ہوئے ہیں، خیر! ہمیں کیا، وہ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ حالات بہتری کی طرف کب تک جائیں گے، یا جا سکتے بھی ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ڈالر سوا تین سو کو چھو رہا ہے، پٹرول تین سے روپے فی لیٹر کے قریب ہے،بجلی کم از کم 70روپے فی یونٹ تک جا چکی ہے، جبکہ قریبی ہمسایہ ملک انڈیامیں صرف 14روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ لہٰذااب اگر یہ روز مرہ کے استعمال کی چیزیں مہنگی ہیں تو غریب آدمی کیا کرے؟ وہ ڈکیتی نہ کرے، راہ زنی نہ کرے یا ہیرا پھیریاں نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ میرے گھر میں فاقے ہوں اور میں خاموشی سے گھر بیٹھ جاﺅں اور موت کا انتظار کروں…. چلیں یہ بھی مان لیا کہ میں موت کا انتظار کر سکتا ہوں…. لیکن آپ اپنے بچوں کا کیا کریں گے؟ یعنی میرا بچہ اگر سکول نہیں جا رہا تو چلیں میں گزارا کر لوں گا، اگر وہ اچھے کپڑے نہیں پہن رہا تو میں گزارا کر لوں گا، لیکن اگر روٹی نہیں کھائے گا ، یا وہ بیمار ہے تو اُسے دوا نہیں ملے گی اور وہ مر رہا ہوگا تو پھر میں یقینا کسی کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ اس حوالے سے کیا آپ کو علم نہیں کہ جنگل کا قانون کیا کہتا ہے؟ جنگل میں جب کسی جانور کا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو وہ اُس کی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے کیا کسی کو چیرنے پھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں؟ نہیں ناں! یہی حال پاکستانیوں کا ہو چکا ہے۔ بلکہ حالات یہ ہیں کہ گوجرانوالہ کے ایک علاقے میں15(پولیس ہیلپ لائن) پر ایک 12سالہ بچی کی کال آتی ہے کہ باپ بیمار ہے، جبکہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھوکے ہیں، لہٰذاہماری مدد کی جائے۔یہ کال جب مقامی ایس ایچ او تک پہنچی تو وہ راشن سمیت لڑکی کے گھر پہنچا اور مدد کی۔ یہ ایک گھر کی کہانی ہے، اس وقت آدھے سے زیادہ پاکستان اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اور تاریخ میں پہلی بار عوام کی جانب سے سول نافرمانی کے دعوے کیے جار ہے ہیں، بلکہ بجلی کے بلوں کے خلاف تو مسجدوں میں بھی اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ ان یوٹیلٹی بلوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
حالانکہ اس سے پہلے بھی بھٹو دور میں ملک میں سول نافرمانی کی کوششیں ہوئی ہیں مگر وہ خالصتاََ سیاسی تھیں، جیسے کراچی اور حیدر آباد میں کرفیو کی خلاف ورزی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ ملتان میں لوگوں نے پولیس کے مقابلے میں مورچہ بندی کر لی جب کہ پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو اس کے نتیجے میں عوام نے بینکوں سے رقوم نکلوا لیں، لازمی خدمات کے بل جمع کرانے سے انکار کر دیا گیا اور اس کے علاوہ لوگوں نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والی ریل گاڑیوں پر بلا ٹکٹ سفر شروع کر دیا۔سٹینلے وولپرٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے حالات زندگی پر اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ سول نافرمانی کی وجہ سے قومی آمدن میں کمی واقع ہو گئی اور حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے وسائل بھی نہ رہے۔یوں دو ریاستی اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر دیا جس کے نتیجے میں مارشل لا کی راہ ہموار ہو گئی۔
لہٰذااب بھی حالات اُسی قسم کے بن رہے ہیں، لیکن اس بار وجہ دھاندلی یا الیکشن کمیشن نہیں بلکہ مہنگائی ہے۔ جبکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومت اور مراعات یافتہ طبقہ کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔بہت کم ماہانہ آمدنی والے عوام ہی کیلئے نہیں متوسط طبقے کیلئے بھی اس بار گراں سے نبھا ممکن نہیں رہا۔ عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور اب یہ صورتحال ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ اپنے طور پر گھروں سے نکل آئے ہیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز بہت جذباتی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ہمارے ہاں کچھ لوگ پہلے سے چاہتے ہیں کہ انتشار کو ہوا دی جائے اور پاکستان جتنا غیر مستحکم ہو سکتا ہے اسے کیا جائے ،یہ کوشش اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہے مگر حکومت کو ابھی تک صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں اور وہ عوام کی چیخ وپکار سے بے نیاز روٹین کی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔
بہرکیف مملکتِ خداداد میں 76برسوں سے لگے تماشے کا جائزہ لیں تو کھیتی صرف عوام نے ہی کاٹی ہے۔ حکمرانوں کی لگائی ہوئی کھیتیاں کاٹتے کاٹتے اب تو ہاتھ بھی لہو لہان ہو چکے ہیں بالخصوص دو خاندان ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ حکمرانی کے ادوار میں وطنِ عزیز کی عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ کوڑھ کاشت کرتے رہے ہیں، وہ کوڑھ اب جابجا ہر سو دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر طرزِ حکمرانی کی سبھی کھیتیاں عوام ہی کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے اعمال کی ایک کھیتی بھی نہیں کاٹی‘ کھیتی کاٹنے کے بجائے یہ نئی فصل ہی لگاتے چلے گئے ہیں اور ان سبھی فصلوں کو کاٹتے کاٹتے عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔
لہٰذاان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہیں الیکشن۔ لیکن الیکشن کے نتائج کا خوف فیصلہ کرنے والی قوتوں کو اس قدر بے چین کیے ہوئے ہے کہ وہ الیکشن کا نام ہی نہیں لیتے۔ بلکہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت پر ہر پہلو سے پابندی لگا رہے ہیں، لیکن اُس کی شہرت کا کم ہونا تو دور کی بات وہ ہر ضمنی انتخابات بھی جیت رہی ہے۔ جیسے گزشتہ روز سوات میں بلدیاتی ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 80فیصد نشستیں حاصل کیں(جیتنے والے متعدد آزاد اُمید وار وں کا تعلق بھی تحریک انصاف ہی سے تھا) لیکن یہ خبر بلیک آﺅٹ کر دی گئی۔ لہٰذا ایسے ماحول میں کیسے ممکن ہے، صحیح قیادت اس ملک کو سنبھالے گی۔ اور اگر جب بھی الیکشن ہوئے، اور الیکشن دھاندلی زدہ کروانے کی کوشش کی گئی تو کیا اس سے ملک میں استحکام آجائے گا؟ کیا اُس سے آئی ایم ایف رام ہو جائے گا؟ ایسا کبھی ممکن نہیں ہوگا! اس لیے فیصلہ کرنے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ملک کو دیکھیں، یہاں کے عوام کو دیکھیں اور پھر فیصلے کریں ورنہ کچھ نہیں بچے گا!