اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ بلوچ ’لاپتہ افراد‘ کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے گرفتار مظاہرین کی ضمانتیں منظور کر لی ہیں۔
اتوار کو اسلام آباد پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ مظاہرین نے گرفتار افراد کی رہائی کے لیے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی تشکیل کردہ کمیٹی اور گورنر بلوچستان سے مطالبہ کیا تھا۔
پولیس کے مطابق قانونی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے گرفتار مظاہرین کی ضمانتیں منظور ہو گئی ہیں اور انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔
ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار افراد کے عزیز و اقارب معلومات اور مدد کے لیے رابطہ کریں تاکہ ان کو قانونی معاونت فراہم کی جا سکے۔
جمعرات کو جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں بلوچستان سے اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔
گرفتار ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جس کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ کو مستونگ، قلات اور وڈھ میں تین مختلف مقامات پر جب کہ بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی شاہراہ کو بارکھان میں مظاہرین نے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
مظاہرین نے اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کے شرکا، لاپتہ افراد کے لواحقین، خواتین اور بچوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ، واٹر کینن کے استعمال اور گرفتاریوں کی مذمت کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا پرامن احتجاج کر رہے تھے اور وہ 1600 کلومیٹر دور تربت سے اسلام آباد پہنچے تھے لیکن سپریم کورٹ، پارلیمنٹ سمیت کسی وفاقی ادارے نے مظاہرین کی نہیں سنی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے پولیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا۔
جمعے کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ مظاہرین کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے منتظمین کے حوالے کیا جائے۔
جمعے کو دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں پولیس سربراہ اکبر ناصر نے بتایا کہ کوئی خاتون حراست میں نہیں۔