عسکریت پسندوں کی تیز رفتار پیش قدمی، بشار الاسد کی دفاع کو مضبوط کرنے کی کوشش
شام کی فوج نے کہا کہ وہ حما اور حمص کے ارد گرد فضائی حملے کر رہی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ درعا اور سویدا کے ارد گرد دوبارہ پوزیشن بنا رہی ہے۔
شامی عسکریت پسند سنیچر کو پیش قدمی کے لیے تیار تھے جب حکومتی فورسز نے صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کو بچانے کے لیے حمص کے اطراف میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔
برطانوی خبر رساں ادرے روئٹرز کے مطابق ایک ہفتہ قبل حلب میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سے ملک بھر میں حکومتی دفاعی قوتیں تیز رفتاری سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں کیونکہ باغیوں نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے اور ایسے مقامات پر پہنچ گئے ہیں جہاں طویل عرصے سے بغاوت ختم ہو گئی تھی۔
شمال میں حلب، مرکز میں حما اور مشرق میں دیر الزور پر قبضہ کرنے کے علاوہ عسکریت پسندوں نے جمعے کو کہا کہ جنوبی سویدا اور درعا میں انہوں نے دونوں شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہاں باغیوں کے جشن منانے ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔
شام کی فوج نے کہا کہ وہ حما اور حمص کے ارد گرد فضائی حملے کر رہی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ درعا اور سویدا کے ارد گرد دوبارہ پوزیشن بنا رہی ہے۔
اس سے قبل شام کی جنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم کا کہنا تھا کہ شامی حکومت جنوبی شہر درعا اور صوبے کا کنٹرول کھو بیٹھی ہے جو ملک میں2011 میں ہونے والی بغاوت کا گڑھ تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ ’مقامی دھڑوں نے درعا شہر سمیت صوبہ درعا کے مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ حکومتی فورسز کے یکے بعد دیگر انخلا سے ان کا صوبے کے 90 فیصد سے زیادہ حصّے پر قبضہ ہے۔‘
برطانیہ میں قائم شام کی جنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم کے سربراہ رامی عبد الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’صوبہ درعا میں صرف صنمائن کا علاقہ اب بھی حکومت کے پاس ہے۔‘
تنظیم نے بتایا کہ جمعے کے اوائل میں مقامی دھڑوں نے اردن کے ساتھ نصیب جابر سرحدی کراسنگ پر قبضہ کر لیا۔
اردن کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ ’عمان نے شام کے ساتھ واحد تجارتی اور مسافر بارڈر کراسنگ بند کردی ہے۔‘
اردنی وزیر داخلہ مازن الفارایا کا کہنا ہے کہ ’اردن کے باشندوں اور اردنی ٹرکوں کو کراسنگ کے ذریعے واپسی کی اجازت ہوگی جسے اردن کی طرف جابر کراسنگ کہا جاتا ہے جبکہ کسی کو شام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘
درعا صوبہ 2011 میں شامی صدر کی حکومت کے خلاف بغاوت کا گڑھ تھا تاہم، بشار الاسد کے اتحادی روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 2018 میں یہ دوبارہ حکومت کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔