(سید عاطف ندیم-پاکستان): اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین نئے ججز آنے کے بعد وکلا کا احتجاج جاری ہے لیکن اس معاملے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حمایت کے بعد وکلا میں بھی واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی طور پر مزید بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں جن میں جسٹس محسن اختر کیانی کی جگہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو انسدادِ دہشت گردی اور احتساب عدالتوں کا انتظامی جج تعینات کر دیا گیا ہے۔اسی طرح جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس اعظم خان کو ڈسٹرکٹ کورٹس ویسٹ کا انتظامی جج تعینات کیا گیا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے آفس آرڈر جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق جسٹس ارباب محمد طاہر وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے کورٹس) کے انتظامی جج تعینات ہوئے ہیں ۔
آفس آرڈرکے مطابق جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو بینکنگ کورٹس کی انتظامی جج تعینات کردیا گیا ہے۔بعض آئینی ماہرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ یہ سب آئین اور قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکلا کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 175اے سے متصادم ہے۔
واضح رہے کہ صدرِ پاکستان آصف زرداری کی منظوری کے بعد لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے تین ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا مطالبہ ہے کہ صرف اسلام آباد میں موجود افراد کو ججز اور چیف جسٹس تعینات کیا جائے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی ان تعیناتیوں کو قانون کے مطابق قرار دے چکے ہیں۔اس معاملے پر وکلا کا احتجاج جاری ہے اور ہائی کورٹ بار ہڑتال کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 80 فی صد سے زائد کیسز میں وکلا پیش نہیں ہوئے۔لا افسران سرکاری وکلا اور درخواست گزار خود عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں ایک کیس سماعت کے لیے مقرر تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں کچھ کیسز میں وکلا کچھ میں درخواست گزار خود پیش ہوئے۔وکلا پیش نہ ہونے پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی کیسز کی لسٹ جلدی ختم ہو گئی۔ جسٹس طارق جہانگیری کی عدالت میں بھی کیسز زیادہ تر وکلا کی عدم پیشی پر ملتوی ہو گئے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں بھی زیادہ تر وکلا پیش نہیں ہوئے جسٹس بابر ستار کی عدالت میں ہڑتال کے باوجود کچھ وکلا پیش ہوئے۔سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 200 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ صدر پاکستان دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور متعلقہ جج سے پوچھ کر انہیں ٹرانسفر کرسکتا ہے۔اُن کے بقول اب 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کے بعد ٹرانسفر ہونے والے ججز کی سنیارٹی بھی برقرار رہے گی اور ان کا حلف بھی برقرار رہے گا۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبادلے کے بعد کسی دوسری ہائی کورٹ سے آنے والا جج دوسری ہائی کورٹ میں چیف جسٹس نہیں بن سکتا اور ایسا آئین میں موجود ہے۔تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل حافظ احسان کھوکھر اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کی ایک عدالت ہے جس میں کسی بھی صوبے سے ججز بلائے بھی جا سکتے ہیں اور انہیں چیف جسٹس بھی لایا جا سکتا ہے۔اس بارے میں دنیا بھر کی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی بھی جج کو دوسرے علاقوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔جوڈیشل کمیشن میں تمام افراد عدلیہ سے متعلق ہیں اور اگر تمام عدلیہ سے متعلق افراد نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ دوسری ہائی کورٹس سے ججز لائے جاسکتے ہیں تو یہ ایک جوڈیشل آرڈر ہے۔حافظ احسان نے کہا کہ اب نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقۂ کار یہ ہو گا کہ جوڈیشل کمیشن کو تین ججز کے ناموں کا پینل بھجوایا جائے گا اور اس میں وہ جس جج کو بھی چیف جسٹس کے لیے مناسب سمجھیں گے انہیں تعینات کردیا جائے گا۔ اس میں کوئی بھی ایشو نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 کے مطابق دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے پر عارضی چیف جسٹس تعینات ہونے کے لیے صرف ایگزیگٹو آرڈر کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو قائم مقام چیف جسٹس بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن کی مرضی ہے کہ وہ کس کو چیف جسٹس تعینات کرتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد اس سے متفق نہیں ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 200 میں کی گئی ترمیم آرٹیکل 175اے سے متصادم ہے اور کسی بھی بیرونی جج کو یہاں تعینات نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ یہ ٹرانسفرز بدنیتی پر مبنی ہیں اور اس سے عدلیہ میں مزید تقسیم پیدا ہو گی۔ وکلا اس عمل کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے اور اس فیصلے کو رد کرتے ہیں۔ریاست علی آزاد نے ججز کی سپریم کورٹ میں ترقی کو بھی بدنیتی پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں عدلیہ کی خودمختاری کو کمزور کرنے کے لیے اس قسم کے اقدامات کر رہی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے احتجاج کے بعد ملک کے بعض دیگر علاقوں کی ہائی کورٹس بار بھی اس پر احتجاج کر رہی ہیں۔
کراچی بار ایسوسی ایشن نے جنرل باڈی اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں ججز کے تبادلوں کو آئین کے آرٹیکل 200 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن اس معاملہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے ساتھ ہے۔کراچی بار کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹس ایک آزاد آئینی باڈی ہیں اور ان کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے اس قسم کی اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر نواز وڑائچ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آئینی طور پر اس معاملے کی جو بھی صورتِ حال ہو ہم ایک بات پر متفق ہیں کہ اس فیصلے کی نیت بالکل بھی درست نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اگلا نشانہ سندھ ہائی کورٹ ہو گی جہاں پر دوسری جگہ سے ججز لا کر اپنی مرضی کی جائے گی۔