پاکستاناہم خبریں

باجوڑ میں بم دھماکہ: اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار اور دو پولیس اہلکار شہید، 12 افراد زخمی

"ملک دشمن عناصر امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ عوام اور ادارے متحد ہیں۔"

باجوڑ (نمائندہ خصوصی)
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں بدھ کے روز ہونے والے ایک دھماکہ خیز حملے میں اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار اور دو پولیس اہلکار شہید جبکہ کم از کم 12 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ اس سانحے نے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے اور حکام نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔


واقعے کی تفصیلات

ضلع باجوڑ کے علاقے پھاٹک میلہ میں بدھ کی صبح اس وقت دھماکہ ہوا جب اسسٹنٹ کمشنر ناوگئی فیصل اسماعیل کی گاڑی معمول کے گشت پر بازار کے قریب سے گزر رہی تھی۔ ڈی پی او باجوڑ وقاص رفیق کے مطابق، یہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کیا گیا، جس کا ہدف انتظامی حکام کا قافلہ تھا۔

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

"اس دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر فیصل اسماعیل، تحصیلدار، اور دو پولیس اہلکار موقع پر ہی شہید ہو گئے، جبکہ 12 دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں پانچ پولیس اہلکار اور سات عام شہری شامل ہیں۔”


زخمیوں کی حالت اور امدادی کارروائیاں

پولیس ترجمان منصور خان کے مطابق، زخمیوں کو فوری طور پر ریسکیو 1122 کے ذریعے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں کئی کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال باجوڑ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، جبکہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مشیر صحت احتشام علی نے ڈی ایچ او اور ایم ایس سے رابطہ کر کے تمام زخمیوں کے علاج کو ترجیح دینے کی ہدایت دی ہے۔


سیاسی و حکومتی ردِعمل: شدید مذمت اور انصاف کا وعدہ

دھماکے کے فوری بعد واقعے کی مذمت کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا، صوبائی حکومت اور مختلف سیاسی رہنماؤں نے اس واقعے کو بزدلانہ حملہ قرار دیا۔

مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا:

"وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے اور متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ واقعے میں ملوث عناصر کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ:

"ملک دشمن عناصر امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ عوام اور ادارے متحد ہیں۔”


علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ، سرچ آپریشن جاری

دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ داخلی و خارجی راستوں پر سخت ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور مشکوک افراد سے تفتیش جاری ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تحقیقات میں بعض اہم شواہد حاصل کیے گئے ہیں، جنہیں خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔


ماضی کے حملے اور سیکیورٹی چیلنجز

یہ پہلا موقع نہیں کہ باجوڑ دہشت گردوں کا ہدف بنا ہو۔ اس سے قبل بھی:

  • ڈمہ ڈولہ میں ایک بم دھماکے میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

  • وانا (جنوبی وزیرستان) میں ایک اور حملے میں سات افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

  • حال ہی میں پشاور میں ہونے والے دھماکے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ تمام واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے نشانے پر ہیں، جہاں سیکیورٹی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے۔


عوامی ردِعمل اور تحفظات

مقامی شہریوں، عمائدین اور سیاسی کارکنوں نے انتظامی افسروں کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ:

"صرف مذمتی بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ سرکاری افسران اور عوام کو تحفظ ملے۔ بار بار ہونے والے دھماکے ناکافی انٹیلیجنس اور کمزور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔”


نتیجہ: قربانیاں اور مطالبہ برائے امن

باجوڑ میں پیش آنے والا یہ اندوہناک واقعہ ریاستی اداروں، سرکاری افسران اور عام شہریوں کی قربانیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ملک میں پائیدار امن کے لیے فوری، مربوط اور سخت فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔

ایسے واقعات صرف آنسو، مذمت یا دعاؤں سے ختم نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ایک جامع، مربوط اور نڈر قومی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے — ورنہ یہ آگ نہ جانے کب کس کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button