
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)
ایک نئی بین الاقوامی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں جون اور جولائی 2025 کے دوران ہونے والی شدید بارشیں اور ان کے نتیجے میں آنے والے مہلک سیلاب براہ راست گلوبل وارمنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان موسمیاتی تغیرات نے ملک کے شہری و دیہی علاقوں کو بُری طرح متاثر کیا، جہاں تین سو سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے، جب کہ ہزاروں مکانات، کھیت اور جانور سیلاب کی نذر ہو گئے۔
یہ تحقیق امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) کے مطابق بین الاقوامی ماحولیاتی گروپ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن (WWA) کی جانب سے جاری کی گئی ہے، جو موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے واقعات کے سائنسی تجزیے پر کام کرتا ہے۔
10 سے 15 فیصد زیادہ بارش: جنوبی ایشیا میں غیرمعمولی موسمی شدت
تحقیق کے مطابق 24 جون سے 23 جولائی 2025 کے درمیان جنوبی ایشیا میں 10 سے 15 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی، جو عام اوسط سے کہیں زیادہ تھی۔
اس شدید بارش کی وجہ سے پاکستان کے متعدد علاقوں میں سیلاب آئے، عمارتیں گریں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔
پاکستان کی حکومت کے مطابق 26 جون کے بعد ہونے والی شدید بارشوں نے اب تک 300 سے زائد جانیں لے لی ہیں جبکہ 1,600 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے باعث تیز بارشیں، سیلاب میں اضافہ
اسلام آباد میں مقیم موسمیاتی سائنسدان جیکب سٹینز نے، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، بیان دیا کہ
"گلوبل وارمنگ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے بارشوں کی شدت کو ماہرین کی توقع سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں حالیہ موسم نے دنیا بھر کے ماہرین کو چونکا دیا ہے، کیونکہ اس قسم کے خطرناک موسمیاتی مظاہر مستقبل کی پیشگوئیوں سے کہیں پہلے سامنے آ گئے ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کا انتباہ: "2050 کے واقعات اب 2025 میں ہو رہے ہیں”
آسٹریا کی گریز یونیورسٹی کے ماہر ارضیات سٹیز نے خبردار کیا کہ
"ہم نے جن موسمی واقعات کی پیش گوئی 2050 کے لیے کی تھی، وہ اس وقت رونما ہو رہے ہیں۔ رواں موسم گرما میں درجہ حرارت اوسط سے کہیں زیادہ رہا، جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔”
انسانی المیے کی جھلک: ہنزہ میں لاکھوں کا نقصان، سینکڑوں بے گھر
شمالی پاکستان کے علاقے ہنزہ کے رہائشی اور کاروباری شخص ثاقب حسن نے بتایا کہ
"22 جولائی کو آنے والے سیلاب نے ہمارے اور ہمارے 18 رشتہ داروں کے گھروں کو ملیا میٹ کر دیا۔ ساتھ ہی ہمارے ڈیری فارمز بھی تباہ ہو گئے، جس میں رکھا گیا مویشیوں کا تمام سرمایہ بہہ گیا۔ ہمیں تقریباً 10 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔”
ثاقب کے مطابق مقامی لوگوں کو خبردار کرنے کا واحد ذریعہ مساجد کا لاوڈ اسپیکر ہے، جس کے ذریعے محفوظ مقامات کی طرف جانے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔
"ہم اب خیموں میں رہ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے صرف 50 ہزار روپے کا راشن اور سات خیمے دیے گئے ہیں، جس میں ہمارا پورا خاندان پچھلے دو ہفتوں سے گزارا کر رہا ہے۔”
مون سون اور کلائمٹ چینج: ہمالیائی خطہ بھی خطرے میں
تحقیق میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ مون سون کی شدت میں اضافہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پورا جنوبی ایشیا اس کی لپیٹ میں ہے، خاص طور پر ہمالیائی پہاڑی سلسلہ جس کا دائرہ پاکستان، بھارت، نیپال، بھوٹان اور چین تک پھیلا ہوا ہے۔
گزشتہ مہینے نیپال اور چین کو ملانے والا ایک پل سیلاب کے باعث منہدم ہو گیا، جب کہ بھارت کے شمالی علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ایک گاؤں کے سینکڑوں افراد لاپتہ ہو گئے اور کم از کم چار ہلاکتیں ہوئیں۔
تحقیق کی سربراہ مریم زکریا: "فوسل ایندھن سے نکلنا ناگزیر ہو چکا ہے”
تحقیق کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر مریم زکریا، جو امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمنٹل پالیسی سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ
"گرم ماحول میں نمی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جس سے بارش کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر درجہ حرارت میں 10 ڈگری کا اضافہ ہو جائے تو موسم تیزی سے شدید بارش کی طرف بڑھتا ہے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ
"یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمیں فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف تیزی سے منتقل ہونا ہوگا، ورنہ ایسے سانحات مزید سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔”
اب بھی وقت ہے!
تحقیق کے مصنفین اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ماحولیاتی پالیسیوں میں فوری اور سنجیدہ تبدیلی نہ لائی گئی تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو مزید انسانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔ گلوبل وارمنگ اب کوئی مستقبل کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ موجودہ نسل اس کے سنگین اثرات کا سامنا کر رہی ہے۔