کالمزسید عاطف ندیم

چینی کا مصنوعی بحران: پاکستان میں ہر سال دہراتی ایک کہانی……سید عاطف ندیم

بلوچستان میں اب چینی کی نقل و حرکت کے لیے پرمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے

پاکستان میں چینی کا بحران اب ایک موسمی معمول بنتا جا رہا ہے۔ ہر سال، خاص طور پر گرمیوں کے آغاز میں، عوام کو بتایا جاتا ہے کہ چینی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور حکومتی سبسڈی جیسے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں، بلکہ ماہرین اور سابق حکومتی عہدیداروں کے مطابق یہ ایک ’’منصوبہ بند بحران‘‘ ہے۔

بلوچستان میں تعینات سرکاری افسران اور مسافروں کے مطابق، گزشتہ چند سالوں سے چینی کو پنجاب سے بلوچستان لایا جاتا ہے اور وہاں سے غیر قانونی طور پر افغانستان اسمگل کیا جاتا ہے۔ کسٹمز حکام کے مطابق 2023 کے دوران ہر دوسرے دن کوئٹہ سے 100 ٹن جبکہ ہفتے کے دوران 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں سے افغانستان پہنچائی گئی۔

البتہ رواں سال اسمگلنگ میں کچھ کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ پاکستانی چینی اس وقت افغان مارکیٹ کے مقابلے میں مہنگی ہے، جبکہ وہاں بھارتی چینی نسبتاً سستی نرخوں پر دستیاب ہے۔ دوسری طرف، اب پاکستان سے چینی قانونی برآمدات کی اجازت دی جا چکی ہے، جس سے غیر قانونی راستوں پر انحصار کم ہوا ہے۔

بلوچستان میں ایک صوبائی افسر کے مطابق اب چینی کی نقل و حرکت کے لیے پرمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ ہر گاڑی کو، چاہے وہ بارہا کسی چیک پوسٹ سے گزری ہو، پرمٹ دکھانا ضروری ہے۔ تاہم، اسی افسر نے اعتراف کیا کہ "کچھ گاڑیوں کا پرمٹ چیک ہی نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے اسمگلنگ ممکن رہی۔”

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ "یہ بحران ہر سال جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا ہے تاکہ شوگر مِل مالکان کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔” ان کے مطابق، جب کرشنگ سیزن آتا ہے، بحران کو ختم کر دیا جاتا ہے تاکہ تمام فریقین کو منافع حاصل ہو۔

انہوں نے حکومت کی 757,000 میٹرک ٹن چینی کی برآمدات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام بغیر منصوبہ بندی کے کیا گیا، جس سے مقامی مارکیٹ میں قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

معاشی تجزیہ کار کے مطابق پاکستان کی شوگر انڈسٹری دراصل ایک طاقتور کارٹیل کے زیر اثر ہے، جو قیمتوں، پیداوار اور برآمدات کو اپنے فائدے کے لیے کنٹرول کرتا ہے۔

ان کے مطابق:

  • ہر سال کارٹیل چینی ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔

  • حکومت کو برآمدات کی اجازت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

  • برآمدات کے بعد چینی درآمد کرنے کی اجازت مانگی جاتی ہے، جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

  • یوٹیلٹی اسٹورز پر دی جانے والی سبسڈی کا اصل فائدہ مِل مالکان کو پہنچتا ہے۔

  • جب عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو برآمدی سبسڈی مانگی جاتی ہے تاکہ نقصان عوام برداشت کرے اور منافع مخصوص طبقے کو ملے۔

چینی کی صنعت پر سیاسی اشرافیہ، ریٹائرڈ فوجی افسران، بااثر بیوروکریٹس اور بڑے کاروباری خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہی افراد نہ صرف پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ سبسڈی، ٹیکس ریلیف اور درآمدات کے فیصلوں میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

جولائی 2025 میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک جا پہنچی، جسے حکومت نے بعد ازاں 163 روپے پر روکنے کی کوشش کی۔ لیکن عوام کو سستی چینی اب بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں، اور حکومتی اقدامات دکھاوے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتے۔

چینی کا یہ بحران محض قلت کی پیداوار نہیں بلکہ ایک مربوط اور منصوبہ بند عمل ہے جس کے پیچھے منافع بخش سیاسی و معاشی مفادات چھپے ہیں۔ جب تک حکومت شفاف پالیسی، آزاد مارکیٹ، اور طاقتور کارٹیلز کے خلاف سنجیدہ کارروائی نہیں کرتی، چینی کا بحران ہر سال عوام کے لیے ایک عذاب کی صورت میں لوٹتا رہے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button