
ٹرمپ کی امن تجویز اور نئی پیش رفت: حماس نے جزوی قبولیت کا اظہار کیا، اسرائیل سے بمباری بند کرنے کا مطالبہ
“اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے، تاکہ ہم یرغمالیوں کو بحفاظت اور جلدی سے باہر نکال سکیں! فی الحال، ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔”
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر حماس کو ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی، اور اب حماس نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شمولیتی مذاکرات کے لیے "فوری طور پر” آمادہ ہے۔ ٹرمپ نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے غزہ پر بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یرغمالیوں کی بازیابی ممکن ہو سکے۔
ٹرمپ کی تجویز اور ڈیڈ لائن
ٹرمپ نے اپنی 20 نکاتی امن تجویز کے لیے حماس کو اتوار شام 6 بجے (واشنگٹن وقت) تک کا موقع دیا تھا، اور کہا کہ اگر وہ اس معاہدے کو قبول نہ کرے تو ’’مکمل قیامت‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے ٹروتھ سوشل پر لکھا:
“اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے، تاکہ ہم یرغمالیوں کو بحفاظت اور جلدی سے باہر نکال سکیں! فی الحال، ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔”
مزید کہا کہ “ہم پہلے سے ہی تفصیلات پر بات چیت کر رہے ہیں جو کیے جائیں گے” اور یہ دن بہت اہم ہے۔
ٹرمپ کی تجویز اسرائیل-حماس جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے فوجی انخلا، حماس کی اسلحہ تنزلی، اور ایک عبوری حکومت کے قیام پر مبنی ہے، جو بین الاقوامی نگران عملہ کے ماتحت ہو گی۔
نیتن یاہو نے اس منصوبے کی ابتدا میں حمایت کا اظہار کیا، تاہم وہ اس پر مبنی موقف پر متعدد شرطیں عائد کی ہیں۔ Le
حماس کا ردعمل: جزوی قبولیت، مگر شرائط کے ساتھ
حماس نے اپنی سرکاری بیان میں کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی تجویز کی کچھ شرائط کو قبول کرتی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر شق پر بلا چون و چرا متفق ہے۔
اہم نکات جنہیں حماس نے قبول کیا یا زیر غور رکھا:
حماس نے کہا ہے کہ وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ و مردہ دونوں) کو ٹرمپ کی تجویز کے مطابق تبادلے کی فارمولے پر رہائی دینے پر آمادہ ہے۔
وہ فوری مذاکرات شروع کرنے کے لیے ثالثوں (قطر، مصر وغیرہ) کے ذریعے تیار ہیں تاکہ تبادلے کی تفصیلات طے کی جائیں۔
حماس نے یہ بیان کیا کہ وہ غزہ کی حکمرانی کو ایک فلسطینی نگران حکومت (ٹیکنوکریٹس) کے حوالے کرنے کی بات کرے گی، بشرطیکہ وہ قومی اتفاق رائے اور عرب/اسلامی حمایت پر مبنی ہو۔
تاہم، حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کی بعض شرائط، جیسے غزہ کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی کمیٹی (Board of Peace) کی تشکیل، یا کامل اسلحہ تنزلی پر فی الحال کوئی واضح عہد نہیں کیا۔
یعنی، حماس نے اس امن منصوبے کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا، بلکہ مذاکرات کی بنیاد پر شرائط طے کرنے کی تجویز رکھی ہے۔
ٹرمپ کا ردعمل اور بمباری بند کرنے کی اپیل
حماس کے اعلان کے بعد، ٹرمپ نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیا اور کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر عرض کیا:
“اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو بحفاظت اور جلدی سے باہر نکالا جائے۔”
انہوں نے ویڈیو پوسٹ میں اسے ایک “بڑا دن” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ انہیں اب حتمی لفظ کو ٹھوس انداز میں بیان کرنا ہوگا۔
مکمل جنگ بندی ممکن ہے؟ بڑی رکاوٹیں اور امکان
اگرچہ حماس نے جزوی قبولیت کا اشارہ دیا ہے، مگر کئی سرخ لکیریں یا شقیں ایسی ہیں جن پر وہ سخت موقف اختیار کر سکتی ہے:
غزہ پر بمباری بننا: ٹرمپ نے بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یرغمالیوں کی بازیابی ممکن ہوسکے۔ مگر اگر یہ بمباری نہ رکی، تو مذاکرات عملی معنوں میں نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گی۔
انخلا اور اقتدار کی منتقلی: حماس نے غزہ کی حکمرانی دوسرے فریق کو دینے پر بات کرنے کی آمادگی ظاہر کی ہے، مگر وہ ممکنہ حدود و قیود کے تحت۔ اگر اسرائیل یا ٹرمپ اس شق کو سختی سے نافذ کرنے پر ڈٹے رہیں، تو حماس اسے رد کر سکتی ہے۔
اسلحہ تنزلی اور مکمل غلبہ: ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ حماس کو اسلحہ ترک کرنے اور بین الاقوامی نگرانی کے تحت آنے کا مطالبہ کرتا ہے، جو حماس کی طرف سے اکثر رد کیا گیا رہا ہے۔
تفصیلات پر مذاکرات: حماس نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ تفصیلات پر بات کرنا چاہے گی — یعنی شقوں کو نرم کرنے، مدت، نگرانی، سربلندی حقوق، فلسطینی مستقبل وغیرہ پر بحث کی جائے گی۔
اگر یہ رکاوٹیں دور نہیں ہو سکیں تو مکمل جنگ بندی معاہدہ فوری طور پر ممکن نہ ہو۔ قطر، مصر اور ترکی جیسے ثالث ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ حماس کو اس منصوبے کو قبول کرنے پر آمادہ کریں، اور خلا کو پُر کرنے میں مدد کریں۔
بین الاقوامی ردعمل اور ثالث ممالک کی کوششیں
مصر نے حماس سے اپیل کی ہے کہ وہ ٹرمپ کی تجویز قبول کرے اور غیر مسلح ہو جائے۔ ایک مصر کے وزیرا خارجہ نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یہ پیش رفت عملی سطح پر منتقل ہو گی۔
قطر نے بھی حماس کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ثالثی کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھائے گا۔دیگر ممالک اور تنظیمیں، بشمول اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب لیگ، نے اس پیش رفت کو اہم قرار دیا ہے، لیکن ان میں یہ خدشہ ہے کہ اگر شفافیت اور انصاف نہ ہو تو اس معاہدے کی پائیداری کم ہو جائے گی۔
ممکنہ منظرنامے: اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟
یہاں چند ممکنہ راستے ہیں جو مستقبل میں سامنے آ سکتے ہیں:
| منظرنامہ | وضاحت | امکانات و چیلنجز |
|---|---|---|
| مکمل معاہدہ اور جنگ بندی | حماس اور اسرائیل ایک مفصل، جامع امن معاہدہ طے کرتے ہیں، بمباری بند ہو جاتی ہے، یرغمالیوں کی رہائی ہوتی ہے، اور غزہ میں عبوری حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ | اس کے لیے شرائط پر مفاہمت، شفاف نگرانی اور اعتماد سازی ضروری ہے۔ اگر ایک پارٹی شقوں سے پیچھے ہٹے، تو معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے۔ |
| جزوی جنگ بندی اور معاہدے کی شقوں کا مرحلہ وار عمل | کچھ حصے جیسے یرغمالیوں کی رہائی یا بمباری کی وقتی معطلی سے شروع ہو، باقی معاملات معاملات طے کرنے کے بعد نافذ کیے جائیں۔ | اس طریقے سے لڑائی عارضی کم ہو سکتی ہے، مگر سیاسی تناؤ اور شقوں کے اطلاق میں اختلافات رہ سکتے ہیں۔ |
| معاہدے کی ناکامی اور کارروائی کی بحالی | اگر حماس اور اسرائیل شقوں پر متفق نہ ہوں، اگر بمباری نہ رکے، یا اگر دونوں فریق متنازع شقوں پر پیچھے ہٹیں، تو جنگ دوبارہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ | یہ صورت حال انسانی بحران کو مزید سنگین بنا سکتی ہے اور بین الاقوامی دباؤ بڑھا سکتی ہے۔ |
| اداروں پر دباؤ اور ثالثی کا کردار بڑھنا | ممالک جیسے مصر، قطر، ترکی ثالثی کو فعال کریں اور حماس کے ساتھ مذاکرات میں مزید تعاون کریں تاکہ معاہدے کی دستاویزی شکل بنے۔ | اگر ثالث مؤثر ثابت ہوں، معاہدے کو نافذ کرنے کی سمت ممکن ہے، مگر ان کی کامیابی فریقین کی رضامندی پر منحصر ہو گی۔ |
تنقیدی سوالات اور خدشات
کیا اسرائیل واقعی بمباری بند کرے گا، یا اس کا جزوی تسلسل جاری رہے گا؟
کیا حماس اپنی اسلحہ تنزلی پر راضی ہو گی؟
کیا بین الاقوامی نگرانی اور عبوری حکومت کا ڈھانچہ مستحکم ہو گا؟
فلسطینی مستقبل، ریاست کی تشکیل، اور عوامی حقوق کے معاملات کو کیسے حل کیا جائے گا؟
اگر معاہدہ ٹوٹ جائے، کیا جنگ مزید بدتر صورت اختیار کرے گی؟
اختتامیہ
حماس کا ٹرمپ کی غزہ امن تجویز پر ردعمل ایک اہم پیش رفت ہے، مگر یہ مکمل قبولیت نہیں بلکہ مذاکرات کی بنیاد فراہم کرنے کا اشارہ ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل سے بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو، اور اس پیش رفت کو وہ امن کی سمت ایک قدم قرار دے رہے ہیں۔
تاہم، شقوں کی حساس نوعیت، دونوں فریقین کی پوزیشنیں، اور بین الاقوامی دباؤ اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر مذاکرات کامیاب رہیں تو یہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، لیکن اگر معاہدہ ٹوٹ جائے تو جنگ کی آگ دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔



