
برسلز / ووکل ایئربیس / لندن (رائٹرز + نیوز رپورٹ)
نیٹو کی سالانہ جوہری مشق "اسٹیڈ فاسٹ نون” (Steadfast Noon) اگلے ہفتے سے نیدرلینڈز کی میزبانی میں شروع ہو رہی ہے۔ اس بڑی مشق میں نیٹو کے 14 رکن ممالک کے 71 طیارے حصہ لیں گے۔ مشق کا مقصد نہ صرف جوہری ڈیٹرنس (نپٹنے کی صلاحیت) کو جانچنا ہے بلکہ روس سمیت کسی بھی ممکنہ مخالف کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ نیٹو اپنے رکن ممالک کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار اور پُرعزم ہے۔
مشق کی میزبانی اور مقام
نیٹو کے مطابق، مشق کا مرکزی مرکز نیدرلینڈز کا ووکل ایئربیس ہوگا، جبکہ بیلجیم (کلین بروگل)، برطانیہ (لیکن ہیتھ) اور ڈنمارک (اسکریڈسٹرپ) کے ہوائی اڈے بھی اس مشق کا حصہ ہوں گے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے اس مشق کو "اتحاد کی تیاری، طاقت اور ذمہ داری کا مظہر” قرار دیا۔ انہوں نے ووکل ایئربیس پر ریکارڈ کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں کہا:
"یہ مشق کسی بھی ممکنہ مخالف کو واضح اشارہ دیتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے تمام اتحادیوں کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ کسی بھی خطرے سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔”
کون کون شامل ہے؟ کیا ہو گا؟
14 نیٹو ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
71 سے زائد طیارے مشق میں شامل ہوں گے جن میں لڑاکا طیارے، ریفولنگ طیارے اور نگرانی کے جہاز شامل ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کا عملی استعمال مشق میں شامل نہیں ہے، لیکن ایسے منظرناموں (scenarios) کی مشق کی جائے گی جہاں جوہری ڈیٹرنس کو فعال کیا جا سکتا ہے۔
نیٹو کے جوہری پالیسی کے ڈائریکٹر جم اسٹوکس نے برسلز میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا:
"یہ ایک معمول کی مشق ہے، کسی مخصوص ملک یا حالیہ واقعات کے خلاف نہیں کی جا رہی۔”
روس-نیٹو کشیدگی: پس منظر
روس کی جانب سے فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو اور روس کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ ان دو برسوں میں روسی قیادت نے متعدد بار نیٹو کے ساتھ جوہری تصادم کے امکانات کا اشارہ دیا، جسے نیٹو اور مغربی رہنما خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ بیان بازی قرار دیتے رہے۔
تاہم، حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں کچھ نرمی دیکھی گئی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ستمبر میں عندیہ دیا تھا کہ روس ایک سال تک "نیو اسٹارٹ” معاہدے کے تحت جوہری ہتھیاروں کی حدود کا احترام کرے گا، حالانکہ یہ معاہدہ فروری 2026 میں ختم ہو رہا ہے۔
نیٹو کی جوہری حکمتِ عملی
نیٹو کی جوہری حکمت عملی "ڈیٹرنس اینڈ ڈیفنس” (Deterrence & Defence) کے اصولوں پر مبنی ہے، جس میں تین ستون ہیں:
روایتی طاقت (Conventional Forces)
جوہری ہتھیاروں کی موجودگی (Nuclear Deterrence)
میزائل ڈیفنس اور سائبر دفاع (Missile & Cyber Defence)
مشق کا مقصد ان تمام عناصر کی ہم آہنگی کو جانچنا ہے تاکہ کسی بھی بحران میں فوری اور مؤثر ردعمل ممکن بنایا جا سکے۔
ماہرین کی رائے
بین الاقوامی سیکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر کارلا ہومز کا کہنا ہے:
"اسٹیڈ فاسٹ نون نہ صرف نیٹو کی اندرونی دفاعی صلاحیت کو جانچنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک سیاسی سگنل بھی ہے — خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو مشرقی یورپ میں نیٹو کی موجودگی کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
پاکستان کا موقف اور اثرات؟
پاکستان نیٹو کا رکن نہیں ہے، تاہم ایسی مشقیں خطے اور عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی سیاست پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ پاکستان کے اسٹریٹجک تجزیہ کاروں کے مطابق، ایسے اقدامات جنوبی ایشیاء میں بھی ہتھیاروں کی دوڑ پر اثر ڈال سکتے ہیں، جہاں بھارت اور پاکستان پہلے ہی جوہری ڈیٹرنس کی پیچیدہ دوڑ میں شامل ہیں۔
نتیجہ: ایک احتیاطی مشق یا عالمی طاقتوں کا اشارہ؟
نیٹو کے مطابق، "اسٹیڈ فاسٹ نون” صرف ایک روٹین کی مشق ہے، مگر موجودہ عالمی تناظر — یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، اور جوہری ہتھیاروں کے بڑھتے خطرات — اس مشق کو محض فوجی تیاری نہیں، بلکہ ایک واضح سفارتی پیغام بنا دیتی ہے۔
یہ مشق امن کو یقینی بنانے کے نام پر منعقد کی جا رہی ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہے:
"کیا جوہری ڈیٹرنس امن کا ضامن ہے یا ایک نازک توازن کا خطرناک کھیل؟”
تاریخی پس منظر
"اسٹیڈ فاسٹ نون” نیٹو کی ایک سالانہ مشق ہے جو 1980 کی دہائی سے جاری ہے، اور اس کا مقصد نیٹو کی جوہری ڈیٹرنس پالیسی کو عملی طور پر جانچنا اور مضبوط بنانا ہے۔