بین الاقوامیاہم خبریں

بھارت کی نئی عسکری حکمتِ عملی: ڈرون وارفیئر اسکول، "کولڈ اسٹارٹ” مشقیں اور خطے میں فضائی دفاعی اصلاحات

"ہم اپنے ڈرون کمانڈوز کو اس انداز میں تربیت دے رہے ہیں کہ وہ ڈرون کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہوئے نگرانی، گشت، دشمن ڈرونز کو ناکارہ بنانے اور ضرورت پڑنے پر بم گرانے کے قابل ہوں۔"

نئی دہلی / خطائی تجزیہ (خصوصی رپورٹر) — جنوبی ایشیا میں عسکری توازن بدل رہا ہے۔ بھارت نے حالیہ دنوں میں ڈرون ٹیکنالوجی اور مربوط فضائی دفاعی نظام کے ذریعے پاکستان اور چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کی اپنی نئی حکمتِ عملی کو عملی شکل دینا شروع کر دیا ہے۔ بی ایس ایف کے ڈرون وارفیئر اسکول کی قیام سے لے کر ملک گیر ڈرون مشقیں — “کولڈ اسٹارٹ” تک — یہ تمام اقدامات نئی دہلی کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ مستقبل کی جنگیں بغیر پائلٹ فضائی نظام (UAVs) کے بغیر نہ چل سکیں گی۔


بی ایس ایف کا ڈرون وارفیئر اسکول: "ڈرون کمانڈوز” کی تربیت

بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں اپنے تربیتی مرکز میں ایک ڈرون وارفیئر اسکول کا آغاز کیا ہے۔ اس اسکول کے ذریعے اہلکاروں کو ایسی جدید تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ ڈرون کو نہ صرف نگرانی اور گشت کے لیے استعمال کریں بلکہ دشمن ڈرونز کو ناکارہ بنانے، الیکٹرانک وارفیئر، اور ضرورت پڑنے پر درست شدہ حملے کرنے کے قابل بھی ہوں۔

اس اسکول سے وابستہ شمشیر سنگھ نے میڈیا کو بتایا:

"ہم اپنے ڈرون کمانڈوز کو اس انداز میں تربیت دے رہے ہیں کہ وہ ڈرون کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہوئے نگرانی، گشت، دشمن ڈرونز کو ناکارہ بنانے اور ضرورت پڑنے پر بم گرانے کے قابل ہوں۔”

یہی تبدیلی بھارت کی فوجی سوچ میں ڈرونز کو محض معاون آلے سے لے کر ایک فعال اور حملہ آور عنصر میں تبدیل کرنے کی واضح مثال ہے۔


"کولڈ اسٹارٹ” ڈرون مشقیں: بحریہ، بری افواج اور فضائیہ کا مربوط مظاہرہ

بھارت کُچھ دنوں میں اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ڈرون مشقیں، جنہیں "کولڈ اسٹارٹ” کہا جا رہا ہے، منعقد کرنے والا ہے — جس میں بحریہ، بری افواج اور فضائیہ مشترکہ طور پر حصہ لیں گی۔ ان مشقوں کا مقصد ڈرونز اور کاؤنٹر ڈرون سسٹمز کے آپریشنل اور تکنیکی پہلوؤں کی جانچ ہے تاکہ مربوط فضائی دفاع کو مضبوط بنایا جا سکے۔

انٹیگریٹڈ ڈیفنس اسٹاف کے نائب سربراہ ایئر مارشل راکیش سنہا کا کہنا ہے:

"ہم اس مشق کے دوران اپنے کچھ ڈرونز اور کاؤنٹر-ڈرون سسٹمز کی جانچ کریں گے تاکہ ہمارا فضائی دفاعی نظام اور کاؤنٹر-UAS مکمل طور پر مضبوط ہو سکے۔”

یہ مشقیں دفاعی صنعت کے ماہرین اور محققین کی جانب سے پیش نظر رکھی جائیں گی اور ان کے نتائج آئندہ بھارتی دفاعی پالیسی پر اثر انداز ہوں گے۔


"سدرشن چکر” منصوبہ: 2035 تک مقامی فضائی دفاعی نظام

وزیراعظم نریندر مودی کے اعلان کے مطابق بھارت ایک کثیر سطحی، مربوط فضائی دفاعی نظام تیار کر رہا ہے جسے "سدرشن چکر” کہا جاتا ہے اور اسے 2035 تک مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس نظام کو بعض حلقے بین الاقوامی طور پر اسرائیل کے "آئرن ڈوم” سے مماثل قرار دے رہے ہیں — یعنی یہ انسٹی ٹیوٹک، رڈار، کاؤنٹر-یارز اور ڈرون-کاؤنٹر صلاحیتوں کا مجموعہ ہوگا جو مہلک اور کم فاصلے کے خطرات کا بروقت اور مؤثر جواب دے سکے۔


پس منظر: آپریشن سندور اور خطائی جھڑپیں

بھارتی حکمتِ عملی میں ڈرونز کو مرکزی کردارسونچ کی وجہ حالیہ برسوں میں خطے میں پیش آنے والی جھڑپیں اور آپریشنز ہیں۔ مئی میں بھارتی فضائیہ کی جانب سے "آپریشن سندور” کے نام سے کیے گئے میزائل حملوں میں اسرائیلی ساختہ اور مقامی ڈرونز کا استعمال سامنے آیا، جن کے ذریعے مبینہ طور پر دور دراز کے اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔ اس ردِعمل کے بعد دونوں جانب ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال اور کاؤنٹر-ڈرون صلاحیتوں کو مزید تقویت دی گئی۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بھی اپنے جوابی اقدامات میں ترک ساختہ "آسیس گارڈ سونگر” اور YIHA-III قسم کے ڈرونز تعینات کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں ڈرون ٹیکنالوجی کی دوڑ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔


ماہرین کا نقطۂ نظر: ڈرونز نے جنگ کا نقشہ بدل دیا

سابق لیفٹیننٹ جنرل دیپندر سنگھ ہودا نے کہا:

"ڈرون جیسے بغیر پائلٹ نظام میدانِ جنگ میں انقلابی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ اس کی واضح مثال ہے اور آپریشن سندور جنوبی ایشیا میں اس کے ممکنہ اثرات کی ایک جھلک ہے۔”

دفاعی کمپنی رُدرم ڈائنامکس کے منیجنگ ڈائریکٹر کونارک رائے نے بھی کہا کہ ڈرونز نے حالیہ تنازعات میں نگرانی، درست حملے، توپ خانے کی رہنمائی اور رسد چین کو نقصان پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرونز نے جنگ کی رفتار اور انداز بدل دیا ہے — چھوٹے، سستے FPV سسٹمز سے لے کر طویل فاصلے تک مار کرنے والے مسلح ڈرونز تک، یہ اوزار اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل دونوں سطحوں پر فیصلہ کن ثابت ہوئے ہیں۔


سرحدی کشیدگی، چین اور پاکستان کے تناظر میں حکمتِ عملی

بھارت کی یہ پیش رفت محض تکنیکی یا آپریشنل اپڈیٹ نہیں؛ بلکہ اس کا اسٹریٹجک مقصد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدی یا ٹیکنالوجیکل مقابلے میں برتری حاصل کرے۔ پچھلے سال میں دونوں حریفوں کی جانب سے سرحد پار ڈرونز کی دراندازی، ہتھیاروں کی ترسیل اور نگرانی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جنہوں نے نئی دہلی میں ڈرون دفاع اور حملہ آور صلاحیتوں میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے کی سوچ کو تقویت دی ہے۔

سابق فوجی کمانڈروں اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو اس تبدیلی کے ساتھ نئی جامع پالیسی، اخلاقی اصول، بین الاقوامی قواعد و ضوابط اور ملٹری-سولین تعاون کے پہلوؤں پر بھی توجہ دینا ہوگی، تاکہ ڈرون کے جنگی استعمال کے نت نئے خطرات کو کنٹرول کیا جا سکے۔


چالیں، مسائل اور خدشات

  1. اُبھرتی ہوئی ہائبرڈ جنگی شکلیں: ڈرونز کے ذریعے پراکسی آپریشنز، سپلائی لائنوں پر حملے اور نگرانی کی نئی تکنیکیں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

  2. کاؤنٹر-ڈرون ٹیکنالوجی کی اہمیت: رادار، ریڈیو فریکوینسی جمِنگ، نیٹ ورک بیسڈ ہارڈ اسٹاپس اور لاجزٹیکل ردعمل — یہ سب مرکزی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

  3. سویلین اور انسانی غلطیوں کے خدشات: ڈرون کے استعمال میں خطا یا شناختی غلطی شہری جانی نقصان کا سبب بن سکتی ہے، جس کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں۔

  4. علاقائی اسلحہ دوڑ: اگر بھارت، پاکستان اور چین سب اپنی ڈرون صلاحیتیں بڑھائیں تو خطے میں ایک نئی اسلحہ دوڑ جنم لے سکتی ہے، جس کے نتائج پیشگوئی سے باہر ہوں گے۔


نتیجہ: ڈرونز کے عہد میں جنوبی ایشیا

بھارت کی جانب سے ڈرون وارفیئر اسکول، "کولڈ اسٹارٹ” مشقوں اور "سدرشن چکر” جیسے منصوبوں کی ابتدا بتاتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں مستقبل کی جنگی حکمتِ عملی میں بغیر پائلٹ نظام مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس تبدیلی کے تعمیری اور تحمل آمیز نفاذ کے لیے تہہ داری حکمتِ عملی، شفاف پالیسی میکانزم اور علاقائی سطح پر اعتماد سازی کی اشد ضرورت ہے، ورنہ یہ تکنیکی اپ گریڈنگ ایک وسیع اور غیر مستحکم عسکری دوڑ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button