
سید عاطف ندیم-پاکستان وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہاں ہے، مگر دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت اب مزید صبر ممکن نہیں۔ افغانستان کے ساتھ جاری عارضی جنگ بندی صرف اس صورت میں طویل ہو سکتی ہے جب افغان حکومت ٹھوس شرائط پر عملدرآمد کرے، بصورت دیگر پاکستان کسی بھی دھوکہ دہی یا مہلت کی پالیسی کا شکار نہیں بنے گا۔
وزیراعظم نے یہ بیان جمعرات کے روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اہم اجلاس سے خطاب کے دوران دیا، جہاں حالیہ سرحدی کشیدگی اور دہشت گردی کی تازہ لہر پر تفصیلی غور کیا گیا۔
"دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ، پاکستان کا صبر ختم ہو چکا”
وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان کے اندر موجود دہشت گرد عناصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"افغانستان نے دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جس کے نتیجے میں فتنے الخوارج نے افواج پاکستان پر حملے کیے۔”
انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستانی افواج نے افغان جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
"جنگ بندی افغان قیادت کی درخواست پر ہوئی، ہم نے مہلت نہیں مانگی”
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ جنگ بندی افغان قیادت کی درخواست پر ممکن ہوئی ہے، پاکستان نے کسی صورت مہلت طلب نہیں کی بلکہ امن کو ایک موقع دینے کا ذمہ دارانہ فیصلہ کیا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا:
"اگر جنگ بندی کا مقصد صرف مہلت کا حصول یا ہمیں دھوکہ دینا ہے تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم صرف ٹھوس شرائط پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اب گیند افغانستان کی کورٹ میں ہے۔”
"دوست ممالک کا شکریہ، لیکن اب سخت فیصلوں کا وقت ہے”
وزیراعظم نے قطر، سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غزہ جنگ بندی اور پاکستان-افغانستان کشیدگی میں مصالحتی کردار ادا کیا۔ لیکن انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ:
"پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو ہمیشہ مہمانوں کی طرح رکھا، لیکن جب بھارت کی شہ پر پاکستان پر حملے ہو رہے تھے تو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت میں موجود تھے۔ یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔”
"بھائی چارے کا رشتہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، مگر امن پہلی ترجیح ہے”
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے رکھتا ہے، مگر امن اور ریاستی خودمختاری اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا:
"ہم افغانستان کے ساتھ بھائی چارے کا رشتہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اگر ہماری سرحدوں پر حملے ہوں، فوجی شہید ہوں، اور ریاستی عملداری کو چیلنج کیا جائے تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔”
"فلسطین پر سیاست نہیں، پاکستان کا دو ٹوک مؤقف ہے”
اپنے خطاب کے آخر میں وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ اور فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا:
"کچھ لوگ غزہ پر سیاست کرنا چاہتے ہیں، مگر پاکستان کا مؤقف تاریخی طور پر واضح ہے۔ ہم ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور رہیں گے۔ فلسطین کی ریاست بننی چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ بندی میں پاکستان نے سعودی عرب، قطر، مصر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کیا، جس پر پاکستانی قوم کو فخر ہونا چاہیے۔
تجزیہ: سخت پیغام، مگر امن کے لیے دروازہ کھلا
وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ بیان ایک جانب واضح دفاعی پالیسی اور عسکری خودمختاری کی ترجمانی کرتا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے لیے امن کی جانب ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے: "ہم امن چاہتے ہیں، مگر امن کی قیمت ریاستی کمزوری نہیں ہو سکتی۔”
ماہرین کے مطابق یہ بیان خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کی جانب ایک سفارتی کوشش ہے، لیکن آئندہ افغان رویہ اس کوشش کے مستقبل کا تعین کرے گا۔