مشرق وسطیٰاہم خبریں

"غزہ میں تباہی کے بعد ایک نئی امید کی تلاش”: اقوامِ متحدہ کے امدادی سربراہ کا تباہ حال علاقوں کا دورہ، انسانی بحران کی شدت پر تشویش کا اظہار

میرے پچھلے دورے میں یہ عمارتیں کھڑی تھیں، لوگ زندگی کے معمولات میں مصروف تھے، بچے کھیل رہے تھے۔ آج یہاں صرف خاموشی ہے

غزہ: غزہ کی تباہ حال سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیشر نے کہا ہے کہ "یہ صرف ملبے کا ڈھیر نہیں، بلکہ انسانیت کا ٹوٹا ہوا خواب ہے۔” انہوں نے شمالی غزہ کے علاقے محلہ شیخ رضوان میں تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے اور گندے پانی کے پلانٹ کا معائنہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کو بحال کرنے کے لیے ایک "وسیع، منظم اور ہمہ جہت عالمی کوشش” کی ضرورت ہے۔

غزہ اب ایک بنجر زمین بن چکا ہے

فلیشر، جو چند ماہ قبل بھی اسی علاقے سے گزر چکے تھے، نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

"میرے پچھلے دورے میں یہ عمارتیں کھڑی تھیں، لوگ زندگی کے معمولات میں مصروف تھے، بچے کھیل رہے تھے۔ آج یہاں صرف خاموشی ہے، تباہی ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی بے بسی۔ یہ شہر کا ایک وسیع علاقہ ہے جو اب بنجر زمین بن چکا ہے، اور یہ منظر دل کو چیرنے والا ہے۔”

ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ میں ایک ہفتے سے عارضی جنگ بندی نافذ ہے اور انسانی امداد محدود پیمانے پر داخل ہو رہی ہے۔


قیدیوں کی باقیات کی حوالگی جاری، اسرائیل کی جانب سے دباؤ برقرار

ادھر، اسرائیلی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ جمعے کی شب 75 سالہ ایلیاہو مارگلیت کی باقیات انہیں ریڈ کراس کے ذریعے واپس ملی ہیں، جو نیر اوز کبٹز کے بزرگ کسان تھے اور اپنے حلقے میں "چرچل” کے نام سے جانے جاتے تھے۔

حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل جاری رکھے گا۔ اب تک گروپ نے 28 میں سے 10 مقتولین کی باقیات اور تمام زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔


بنیادی سہولیات کا بحران: بجلی، پانی اور خوراک سب درہم برہم

محلہ شیخ رضوان کے تباہ شدہ واٹر پلانٹ کا معائنہ کرتے ہوئے فلیشر نے کہا:

"ہم نے مقامی باشندوں سے بات کی جو تباہ شدہ گھروں میں واپس آ رہے ہیں، ملبے کو کھود کر بیت الخلا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ انہیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ‘عزت و وقار’ ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے پاس اب 60 دن کا ایک ہنگامی منصوبہ ہے، جس میں شامل ہے:

  • یومیہ 10 لاکھ کھانوں کی ترسیل

  • صفائی کے نظام کی بحالی

  • خیموں کی فراہمی تاکہ لوگ سردیوں سے محفوظ رہ سکیں

  • اور لاکھوں بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجنے کا عزم


امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں: رفح راہداری تاحال بند

اگرچہ جنگ بندی کو ایک ہفتہ مکمل ہو چکا ہے، لیکن مصر کے ساتھ رفح سرحدی گزرگاہ ابھی تک مکمل طور پر کھلی نہیں، جس کے باعث امدادی ایجنسیاں خوراک، ایندھن اور ادویات کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ترکی کی جانب سے ریسکیو ماہرین کی ٹیم سرحد پر تعینات ہے جو ملبے سے لاشیں نکالنے کے لیے تیاری میں ہے، مگر سرحد کھولنے کا انتظار کر رہی ہے۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر شدید سیاسی دباؤ ہے کہ جب تک تمام قیدیوں کی لاشیں واپس نہیں آ جاتیں، امداد پر پابندی جاری رکھی جائے۔


امدادی قافلوں کی آمد: ایک کرنِ امید

اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کے روز تقریباً 950 ٹرک اسرائیل کی سرحد سے غزہ میں داخل ہوئے، جن میں امدادی اور تجارتی سامان شامل تھا۔ تاہم اقوامِ متحدہ اور دیگر انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ مقدار غزہ کی شدید ضرورتوں کے مقابلے میں ناکافی ہے۔


بین الاقوامی برادری سے اپیل: سیاست سے بالاتر ہو کر انسانیت کی مدد کریں

ٹام فلیشر نے عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے کہا:

"یہ وقت سیاست کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ اگر ہم نے اب اقدام نہ کیا، تو غزہ کے لاکھوں افراد سردی، بیماری اور بھوک کی اذیت میں مبتلا ہو جائیں گے۔”

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ امدادی کارروائیوں میں تیزی، سرحدوں کی فوری بحالی اور بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو ہی غزہ کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔


حتمی نوٹ: جنگ ختم ہوئی، مگر بحالی کا سفر ابھی شروع ہوا ہے

جنگوں کے زخم گہرے ہوتے ہیں، مگر ان کا علاج ممکن ہوتا ہے — بشرطیکہ دنیا متحد ہو کر انسانیت کا ہاتھ تھامے۔ اقوامِ متحدہ کا حالیہ دورہ غزہ کی تکلیف دہ حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔ اب یہ عالمی ضمیر پر ہے کہ وہ صرف تماشائی نہ رہے، بلکہ عملی قدم اٹھائے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button