پاکستاناہم خبریں

27ویں آئینی ترمیم: پاکستان کی سیاست میں نیا طوفان — حکومت پُراعتماد، اپوزیشن محتاط، پیپلز پارٹی فیصلہ کن کردار میں

27ویں ترمیم کے معاملے میں حالات خاصے مختلف ہیں۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عددی برتری حاصل ہے، اور اتحادی جماعتوں میں بظاہر اتفاق رائے موجود ہے۔

خصوصی رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز پاکستان نیوز ڈیسک

پاکستان کی سیاسی فضا ایک بار پھر آئینی ترمیم کے گرد گرم ہو گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں، اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار حکومت کو وہ مشکلات درپیش نہیں ہوں گی جو 26ویں ترمیم کے وقت سامنے آئی تھیں۔

3 نومبر کو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کا ایک اعلیٰ سطحی وفد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر چکا ہے اور اس ملاقات میں پیپلز پارٹی سے آئینی ترمیم کی حمایت طلب کی گئی۔

بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد سے ملک کی سیاسی راہداریوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے اور ایک بار پھر طاقت کے توازن پر بحث شروع ہو گئی ہے۔


26ویں سے 27ویں ترمیم تک — ایک مختلف منظرنامہ

گزشتہ برس جب 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش ہوئی تھی تو حکومت کے لیے اپنی دو تہائی اکثریت پوری کرنا ایک کڑا امتحان بن گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے باوجود جے یو آئی (ف)، ایم کیو ایم پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی اور آزاد اراکین کو منانے کے لیے کئی ہفتے لگے۔

تب حکومتی وزرا کو مسلسل مذاکرات، وعدوں اور دباؤ کی سیاست میں الجھا رہنا پڑا۔ ترمیم تو منظور ہو گئی، مگر اس کے سیاسی اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

لیکن اس بار، یعنی 27ویں ترمیم کے معاملے میں حالات خاصے مختلف ہیں۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عددی برتری حاصل ہے، اور اتحادی جماعتوں میں بظاہر اتفاق رائے موجود ہے۔


حکومتی منصوبہ: نمبر گیم حکومت کے حق میں

ذرائع کے مطابق حکومت جمعہ 7 نومبر کو 27ویں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم اس کی باضابطہ تصدیق ابھی باقی ہے۔

قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت — یعنی 224 ووٹ — درکار ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق حکومت کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جو مطلوبہ تعداد سے 13 ووٹ زیادہ ہے۔

حکومتی اتحاد کی موجودہ پوزیشن:

  • مسلم لیگ (ن): 125 ارکان

  • پیپلز پارٹی: 74 ارکان

  • ایم کیو ایم پاکستان: 22 ارکان

  • مسلم لیگ (ق): 5 ارکان

  • استحکامِ پاکستان پارٹی: 4 ارکان

  • دیگر اتحادی (نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیا، باپ پارٹی): 3 ارکان

  • آزاد ارکان: 4

یہ مجموعی طور پر 237 بنتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں اپوزیشن کے پاس محض 89 ارکان ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 76 آزاد ارکان شامل ہیں۔ اگر جے یو آئی (ف) اپوزیشن کا حصہ بنتی ہے تو اس کے 10 ارکان بھی اسی صف میں شامل ہوں گے، جب کہ بی این پی، پی کے میپ اور مجلس وحدت المسلمین کے ایک ایک رکن بھی اس فہرست میں آئیں گے۔

یہ نمبر گیم حکومت کے لیے واضح برتری ظاہر کرتی ہے۔


سینیٹ میں چیلنج لیکن امید باقی

سینیٹ میں حکومت کے لیے صورتحال کچھ زیادہ پیچیدہ ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔

سینیٹ میں حکومتی اتحاد کی پوزیشن:

  • پیپلز پارٹی: 26 سینیٹرز

  • مسلم لیگ (ن): 20

  • بلوچستان عوامی پارٹی (باپ): 4

  • ایم کیو ایم پاکستان: 3

  • مسلم لیگ (ق): 1

  • نیشنل پارٹی: 1

کل تعداد: 61 ووٹ۔

یعنی حکومت کو تین مزید ووٹوں کی ضرورت ہے، جو اسے اے این پی، جے یو آئی (ف) یا آزاد سینیٹرز سے مل سکتے ہیں۔ سینیٹ میں اس وقت چھ آزاد اراکین موجود ہیں، اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی مکمل طور پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو سینیٹ میں بھی ترمیم کی راہ ہموار ہو جائے گی۔


ترمیم کے مجوزہ نکات — مرکز اور صوبوں میں نئی کشمکش؟

ذرائع کے مطابق مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے نکات میں شامل ہیں:

  • آئینی عدالت کا قیام تاکہ آئینی تنازعات کا فیصلہ سپریم کورٹ کے بجائے ایک علیحدہ فورم کرے۔

  • ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی جو 2001 کے بعد ختم کر دیے گئے تھے۔

  • ججز کے تبادلے کا نیا طریقہ کار۔

  • نیشنل فنانس کمیشن (NFC) میں صوبوں کے حصے کی ضمانت ختم کرنے کی تجویز۔

  • آرٹیکل 243 (مسلح افواج کی کمان سے متعلق) میں ترمیم۔

  • تعلیم اور فیملی پلاننگ کو وفاقی فہرست میں واپس لانے کا ارادہ۔

  • الیکشن کمیشن میں تقرریوں کے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے نیا میکانزم۔

یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ ترمیم نہ صرف عدالتی ڈھانچے کو متاثر کرے گی بلکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی نئی بحث بھی چھیڑ سکتی ہے۔


پیپلز پارٹی کا محتاط مؤقف — صوبائی خودمختاری زیر بحث

بلاول بھٹو کے مطابق پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) 6 نومبر کو صدر آصف زرداری کی واپسی پر ترمیم کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے چند سینیئر رہنماؤں نے نجی گفتگو میں اس بات پر تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ NFC ایوارڈ میں تبدیلی سے صوبائی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک سینیئر رہنما نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:
"ہم نہیں چاہتے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ صوبائی اختیارات کسی نئے آئینی جواز کے تحت واپس لے لیے جائیں۔”

اسی لیے مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو یہ یقینی بنانا چاہیں گے کہ اس ترمیم سے پیپلز پارٹی کے صوبائی مفادات، خصوصاً سندھ کے مالی اختیارات، متاثر نہ ہوں۔


اپوزیشن کا ردعمل — "طاقت کے توازن میں مداخلت”

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس ترمیم کو "طاقت کے ارتکاز” کی کوشش قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا:
"27ویں ترمیم دراصل فوجی طاقت اور ایگزیکٹو اختیارات بڑھانے کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ اسے جمہوریت نہیں، بیوروکریسی مضبوط کرے گی۔”

جے یو آئی (ف) نے بھی ابھی تک اپنا واضح مؤقف نہیں دیا، تاہم ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔


ماہرین کی رائے — آئینی ضرورت یا سیاسی چال؟

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق "یہ ترمیم اگر واقعی جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے لیے ہے تو مثبت قدم ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس کے پیچھے طاقت کے توازن میں تبدیلی کی نیت ہے تو یہ آئندہ برسوں میں خطرناک سیاسی بحران پیدا کر سکتی ہے۔”

سیاسی مبصر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ "حکومت نے اس بار نمبر گیم اپنے حق میں کر لی ہے، مگر اصل امتحان پیپلز پارٹی کے فیصلے کے بعد شروع ہو گا۔”


نتیجہ: فیصلہ کن دن قریب

پارلیمنٹ کے اندر گہما گہمی بڑھ چکی ہے۔ جمعہ کو بل پیش ہونے کی صورت میں اگلا ہفتہ پاکستان کی آئینی تاریخ کا نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر حکومت اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب رہی تو 27ویں آئینی ترمیم نہ صرف منظور ہو جائے گی بلکہ ملک میں طاقت کے توازن کی نئی بحث کو بھی جنم دے گی۔

تاہم، اگر پیپلز پارٹی نے "صوبائی خودمختاری” کے معاملے پر اختلاف کیا، تو ایک بار پھر سیاسی کشمکش بڑھ سکتی ہے — اور پاکستان کی پارلیمانی سیاست ایک نئے بحران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button