اہم خبریںپاکستان

ضمنی انتخابات کے بعد مرکز میں ن لیگ کی پوزیشن مستحکم، پیپلز پارٹی پر انحصار کم ہوتا دکھائی دینے لگا

حکومتی صفوں میں نہ صرف ن لیگ کی عددی طاقت میں اضافہ کا سبب بنا ہے بلکہ سیاسی سودے بازی، مطالبات اور مشروط تعاون کے دباؤ میں بھی کمی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز

اسلام آباد: حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے وفاق میں سیاسی طاقت کے توازن کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے، جہاں مسلم لیگ (ن) پہلی مرتبہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی مشروط حمایت پر مکمل انحصار سے باہر آتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی چھوں خالی نشستیں جیتنے کے بعد حکمران جماعت کی پارلیمانی قوت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس سے مرکز میں حکومت کی عددی اکثریت مزید مضبوط ہو گئی ہے۔

ن لیگ 132 نشستوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ بااعتماد

قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے سادہ اکثریت کے لیے 169 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ حکومت اب تک یہ اکثریت پیپلز پارٹی اور چھوٹے اتحادیوں کی مدد سے برقرار رکھے ہوئے تھی، تاہم ضمنی انتخابات میں چھ اضافی نشستیں حاصل کرنے کے بعد ن لیگ کی تعداد 126 سے بڑھ کر 132 ہو گئی ہے۔

یہ اضافہ حکومتی صفوں میں نہ صرف ن لیگ کی عددی طاقت میں اضافہ کا سبب بنا ہے بلکہ سیاسی سودے بازی، مطالبات اور مشروط تعاون کے دباؤ میں بھی کمی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے پاس 170 ووٹ — ایک ووٹ کی برتری کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل

اگر موجودہ حکومتی اتحادی جماعتوں کو شامل کر لیا جائے تو مجموعی صورتحال یوں بنتی ہے:

  • ن لیگ: 132

  • ایم کیو ایم پاکستان: 22

  • مسلم لیگ ق: 5

  • استحکامِ پاکستان پارٹی: 4

  • مسلم لیگ ضیا، باپ اور نیشنل پارٹی: 1، 1، 1

  • آزاد ارکان: 4

یوں حکومت مجموعی طور پر 170 نشستوں تک پہنچ جاتی ہے، جو سادہ اکثریت کے لیے درکار 169 ووٹوں سے ایک ووٹ زائد ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت کم از کم اس حقیقت کو ضرور واضح کرتی ہے کہ حکومت کے بقا کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار اب لازم نہیں رہا۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ حالیہ کشیدگی — پس منظر اور اثرات

گزشتہ ہفتوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تناؤ کھل کر سامنے آیا تھا، خصوصاً سندھ میں نہروں کے پانی کے معاملے پر اختلافات نے دونوں جماعتوں میں اعتماد کی فضا کو متاثر کیا۔ پیپلز پارٹی نے حکومت سے علیحدگی کا عندیہ بھی دیا تھا، جس سے وفاقی حکومت کی پوزیشن عارضی طور پر کمزور دکھائی دی۔

پنجاب حکومت سے پیپلز پارٹی کی شکایات میں شامل ہیں:

  • وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کی جانب سے صدر آصف زرداری کا لاہور میں استقبال نہ کرنا

  • سیلابی امداد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے استعمال پر اختلاف

  • پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مناسب سیاسی اسپیس نہ دینا

دوسری جانب پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ ہمیشہ وزیراعظم شہباز شریف کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس لیے توقع یہی تھی کہ پنجاب میں بھی ایسا ہی تعلق قائم رکھا جاتا۔

سیاسی منظرنامے کی نئی تشکیل

مبصرین کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا عددی فائدہ ن لیگ کو پارلیمانی سطح پر زیادہ بااعتماد بناتا ہے۔ تاہم پارلیمانی سیاست میں محض سادہ اکثریت کافی نہیں ہوتی، بلکہ قانون سازی، قومی اتفاقِ رائے کی پالیسیوں اور آئینی ترامیم کے لیے بڑے اتحادیوں کی ضرورت برقرار رہتی ہے۔

ماہرین کی رائے — حکومت اب بھی تعلقات کی مینجمنٹ پر منحصر

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ:

"ضمنی انتخابات میں چھ نشستیں حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ نون قومی اسمبلی میں وہ ’میجک نمبر‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جسے سادہ اکثریت کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اکثریت چھوٹے اتحادیوں کو ملا کر حاصل ہوئی ہے، لیکن اب وہ پیپلز پارٹی کی مرہونِ منت نہیں رہی۔ ہاں، آئینی ترامیم کے لیے پیپلز پارٹی کی حمایت پھر بھی ناگزیر ہوگی۔”

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر موجودہ عددی برتری برقرار رہتی ہے تو مرکز میں سیاسی طاقت کا توازن بتدریج تبدیل ہو سکتا ہے، اور ن لیگ ایک زیادہ خودمختار حکمران جماعت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button