پاکستاناہم خبریں

پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے پر سوالات اٹھنے لگے

27ویں آئینی ترمیم نے ملک میں ایک نئے ڈھانچے کا آغاز کیا، جس کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کا عہدہ تخلیق کیا گیا

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

حکومت کی جانب سے ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ یہ نیا عہدہ آرمی چیف کے منصب کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے اور 27ویں آئینی ترمیم کے تحت تخلیق کیا گیا تھا، جس کا مقصد فوجی قیادت کے ڈھانچے کو مضبوط اور بہتر بنانا تھا۔ تاہم، یہ منصب اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کا عہدہ 27 نومبر کو باضابطہ طور پر ختم ہوگیا۔

سی ڈی ایف کا نیا عہدہ اور آئینی ترمیم:

پاکستان کی فوجی قیادت میں حالیہ تبدیلیوں کے پیش نظر، 27ویں آئینی ترمیم نے ملک میں ایک نئے ڈھانچے کا آغاز کیا، جس کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ سی ڈی ایف کا عہدہ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کی جگہ لے رہا ہے، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ سرکاری ذرائع اور دفاعی مبصرین کی توقعات تھیں کہ نیا عہدہ اور اس کی تقرری کا نوٹیفکیشن 27 نومبر کو ہی جاری کر دیا جائے گا، تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت اور قانونی پیچیدگیاں:

یہ صورتحال اس حوالے سے اہم سمجھی جا رہی تھی کیونکہ 29 نومبر کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ابتدائی تین سالہ مدت ملازمت کا اختتام بھی تھا۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر نیا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تو آرمی چیف کی مدت ملازمت تکنیکی طور پر ختم سمجھی جا سکتی تھی۔ تاہم، 2024 میں پاکستان آرمی ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کے تحت سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کر دی گئی ہے۔ اس ترمیم میں شامل کی جانے والی ‘ڈیمنگ کلاز’ کے مطابق یہ قانون ہمیشہ کے لیے آرمی ایکٹ کا حصہ تصور ہوگا۔ اس بنا پر قانونی ماہرین کے مطابق، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت کو بڑھانے کے لیے کسی نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں ہے، اور 29 نومبر کو کوئی قانونی حد نہیں سمجھی جاتی۔

سی ڈی ایف کے نوٹیفکیشن کی تاخیر:

سی ڈی ایف کے نوٹیفکیشن کی تاخیر نے حکومت کے اندر اختلافات کی علامت بن گئی ہے۔ متعدد سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سی ڈی ایف کے منصب پر باضابطہ طور پر تعینات کرنے کے لیے ایک نیا عوامی نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا، بالکل اس طرح جیسے حال ہی میں ایئر چیف مارشل ظہیرالدین بابر اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی توسیع کی گئی، جن کے لیے کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا۔

آرمی چیف کی مدت اور قانون سازی کے معاملات:

اس وقت ایک اہم سوال یہ زیر غور ہے کہ آرمی چیف کی پانچ سالہ مدت ملازمت کا آغاز کس تاریخ سے شمار کیا جائے گا: نومبر 2022 سے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالا، یا نومبر 2025 سے جب نئی قانون سازی کی گئی؟ اس حوالے سے مختلف حلقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں، اور یہ معاملہ آئندہ دنوں میں مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ اور جوہری کمانڈ کا نیا ڈھانچہ:

ایک اور حساس مسئلہ یہ ہے کہ سی ڈی ایف کے تحت فضائیہ اور بحریہ پر کمانڈ اختیار کس حد تک ہوگا۔ نیا سی ڈی ایف جوہری کمانڈ اور دیگر اہم دفاعی معاملات میں فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کے ساتھ بھی تعاون کرے گا۔ تاہم، یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ان اداروں کے سربراہان کی حکمت عملی میں کتنا حصہ ہوگا، اور ان کے ادارہ جاتی کردار میں کیا تبدیلیاں آئیں گی۔

نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) میں ترامیم کی ضرورت:

اس وقت نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) ایکٹ میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ سی جے سی ایس سی کے خاتمے اور سی ڈی ایف اور نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ (این ایس سی) کے نئے ڈھانچے کو آرٹیکل 243 کے تحت شامل کیا جا سکے۔ یہ عمل پیچیدہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس حوالے سے کہ فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کی این سی اے میں مستقبل کی نمائندگی کیا ہوگی، اور جب ان کی اسٹریٹجک کمانڈز ایک متحدہ این ایس سی کمانڈر کے ماتحت کردی جائیں گی تو ان کا ادارہ جاتی کردار کس شکل میں برقرار رہے گا۔

اختتام:

پاکستان کے دفاعی ڈھانچے میں یہ تبدیلیاں اور نئے عہدے فوجی قیادت کی طاقتور پوزیشنوں میں توازن قائم کرنے کی کوششیں ہیں، لیکن ان اقدامات کی قانونی اور عملی پیچیدگیاں اس وقت حکومت کے لیے چیلنجز کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ سی ڈی ایف کے نوٹیفکیشن کی تاخیر اور اس سے جڑے دیگر مسائل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کو فوجی قیادت کے نئے ڈھانچے کے حوالے سے مزید واضح فیصلے کرنے ہوں گے، تاکہ دفاعی اداروں کی کارکردگی اور قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے.

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button