
کراچی (نامہ نگار خصوصی)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہے، اور اس کا حل صرف سیاسی اتفاقِ رائے اور جامع ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بلوچستان کے عوام کو ملک کا برابر کا شراکت دار تصور کر کے فیصلے کیے جائیں تاکہ ان میں احساسِ محرومی ختم ہو اور قومی دھارے میں ان کی شمولیت یقینی بنائی جا سکے۔
کراچی میں جمعرات کو ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال، بلوچستان میں دہشت گردی، این ایف سی ایوارڈ، اٹھارہویں ترمیم اور وفاق و صوبوں کے مالیاتی تعلقات جیسے حساس اور اہم امور پر کھل کر گفتگو کی۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے سیاسی پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بلوچستان میں موجودہ صورتحال کی تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی وجوہات ہیں جنہیں صرف فوجی اقدامات سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔
"بلوچستان میں جس قسم کی دہشت گردی دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کے پس منظر میں صرف مقامی محرومیاں نہیں بلکہ بین الاقوامی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ خاص طور پر کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد دہشت گرد کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،” انہوں نے کہا۔
بلاول بھٹو نے نشاندہی کی کہ کچھ قوم پرست گروہوں کا بیرونی طاقتوں سے الحاق بھی خطرناک رجحان ہے، اور ایسے عناصر نے ماضی میں بھارت کی حمایت کا اعلان کر کے ملک کے خلاف کھلی سازش کی۔
"ہمیں چاہیے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو بندوق کے بجائے ووٹ اور ترقی کی راہ دکھائیں۔ ہم ماضی میں دہشت گردی کا مقابلہ کر چکے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے، لیکن طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حل ناگزیر ہے،” انہوں نے کہا۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے: بلاول بھٹو
این ایف سی ایوارڈ اور صوبوں کے مالی وسائل کی تقسیم سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو نے وفاق پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:
"موجودہ این ایف سی ایوارڈ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کی بنیاد پر طے پایا تھا، لیکن ترمیم کے بعد صوبوں کو اضافی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اب یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کے مطابق مزید مالی وسائل بھی فراہم کرے۔”
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی کا بوجھ صوبوں پر ڈالنا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔
ایف بی آر ناکام، صوبوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے
چیئرمین پیپلز پارٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی ادارہ ٹیکس اہداف پورے کرنے میں ناکام رہا ہے، اور اس ناکامی کا خمیازہ صوبوں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
"اسلام آباد کے گناہوں کی سزا سندھ، بلوچستان یا خیبر پختونخوا کے عوام کو کیوں دی جائے؟ اگر ایف بی آر ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتا تو صوبوں کو ٹیکس کا اختیار دیا جائے۔”
انہوں نے کہا کہ جب سروسز پر سیلز ٹیکس صوبوں کو دیا گیا تو سندھ نے سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اشیاء (Goods) پر عائد سیلز ٹیکس کی وصولی کا اختیار بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے۔
وفاق ٹیکس نظام کو بہتر بنائے ورنہ مالی بحران مزید بڑھے گا
بلاول بھٹو زرداری نے حکومتِ وقت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک معاشی بحران سے باہر نہیں نکل پائے گا۔
"ہمیں ایک منصفانہ، شفاف اور مؤثر ٹیکس نظام کی ضرورت ہے۔ صوبوں کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صوبوں کو ان کا جائز حصہ نہیں دیا گیا تو وفاق کی وحدت متاثر ہو سکتی ہے۔"
نتیجہ: سیاسی عمل، بین الصوبائی ہم آہنگی اور آئینی بالادستی وقت کی اہم ضرورت
بلاول بھٹو زرداری کے بیانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وفاق و صوبہ جاتی ہم آہنگی، آئینی اختیارات کا احترام، اور شفاف مالی نظام ہی پاکستان کے مستحکم مستقبل کی ضمانت ہیں۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ہے جو صوبائی خودمختاری، آئینی بالا دستی اور عوامی مفاد پر کسی قسم کی سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔
اگر حکومتِ وقت سنجیدگی سے ان نکات پر غور کرے تو یہ نہ صرف بلوچستان جیسے حساس معاملات میں بہتری لا سکتے ہیں بلکہ وفاقی اکائیوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں۔



