
نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال نے بتایا کہ صوبائی رہنماؤں میں سے بیشتر گرفتاری سے بچنے کے لیے دوسرے اضلاع چلے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو جیل بھجواکر لیڈرز سیاحتی مقامات چلے گئے ہیں۔ ’ہم ان سب کی لوکیشن ٹریس کر رہے ہیں، بہت جلد قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
سابق صوبائی وزراء کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ گلگت گلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ سب وہاں موجود ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے محفوظ مقام ہے۔
پولیس کے ایک ذمہ دار افسر نےبتایا کہ سابق وزراء اور اراکین اسمبلی اپنے حلقوں سے جا چکے ہیں اور کچھ تو اپنی فیملی بھی ساتھ لے کر گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے صوبائی صدر پرویز خٹک بھی نوشہرہ میں اپنے ضلع سے جا چکے ہیں اور اُن کو ہمراہ بیٹے اور گھر والے بھی موجود ہیں۔
گلگت بلتستان کے ترجمان کا موقف
وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے ترجمان علی تاج نے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گلگت بلتستان میں موجودگی کی اُن کو خبر نہیں اور نہ ان باتوں میں کوئی صداقت ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان کیا کہتے ہیں؟
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صوبائی ترجمان شوکت یوسفزئی نے گفتگو میں بتایا کہ ’ہم کہیں نہیں بھاگے اور نہ گرفتاری سے ڈرتے ہیں مگر یہاں انصاف کا نظام موجود نہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اپ دیکھ لیں ہمارے مرکزی قائدین گرفتار ہیں، ایک کیس میں ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے میں گرفتاری ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تو روز ٹاک شو میں شرکت کرتا ہوں اور اپنے حلقے میں موجود ہوں۔‘
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک اور دیگر رہنما بھی جلد سامنے آ جائیں گے فی الحال وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
تحریک انصاف پشاور کے صدر اشتیاق ارمڑ نے اپنے آڈیو میں کارکنوں اور رہنماؤں کو روپوش رہنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے فی الحال کوئی سامنے نہ آئے۔ ’ہم خود پولیس سے بچ بچا کر پھر رہے ہیں اپ سب ورکرز احتیاط کریں۔‘
واضح رہے کہ پشاور سے سابق رکن صوبائی اسمبلی ارباب جہانداد خان گزشتہ روز مری میں اپنے فارم ہاؤس سے گرفتار کیا گیا۔