امجد عثمانیکالمز

پاکستان کا انوکھا ریلوے ٹریک،جہاں "چنگچی رکشے” چلتے ہیں….امجد عثمانی

ماضی قریب میں جنرل پرویز مشرف بزور طاقت ملک کے سیاہ سفید کے مالک ٹھہرے ،بی بی کی شہادت کے بعد زرداری کی سیادت میں پی پی کا راج آیا،نواز شریف دس سالہ جلاوطنی بھگت کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے.... کپتان کا عہد آیا۔

مشرقی سرحد پر واقع آخری شہر کے صدی پرانے تاریخی ریلوے ٹریک پر اب چنگچی رکشے چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کو یقین نہیں تو زیر نظر تصویر دیکھے اور پاکستان ریلوے زندہ باد کا نعرہ لگائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پندرہ سولہ برس ہونے کو ہیں،تحصیل شکرگڑھ کے 10 لاکھ باسی ٹرین کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئے ہیں مگر ابھی تک کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی…..ماضی قریب میں جنرل پرویز مشرف بزور طاقت ملک کے سیاہ سفید کے مالک ٹھہرے ،بی بی کی شہادت کے بعد زرداری کی سیادت میں پی پی کا راج آیا،نواز شریف دس سالہ جلاوطنی بھگت کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے…. کپتان کا عہد آیا۔۔۔اب شہباز شریف کا دور چل رہا ہے…..مذکورہ ادوار میں سعد رفیق ۔۔۔شیخ رشید،غلام احمد بلور اور اعظم سواتی ریلوے کے "پردھان” بنے ہیں مگر کسی” صاحب مسند”کو نا جانے اس”زمین بوس ٹریک” کی حالت پر رحم کیوں نہیں آیا…؟؟؟حکمران تو حکمران ہوتے ہیں جو مزاج میں آئے کرتے ہیں…اپنے گریبان میں جھانکیں تو بھی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا….. شکرگڑھ کے بزرگ سیاستدان جناب انور عزیز اور جناب اشفاق تاج تو چلے گئے…دونوں بھلے آدمی تھے…کسی کا فائدہ نہیں کیا تو کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچایا……انور عزیز صاحب کے فرزند ارجمند جناب دانیال عزیز دو مرتبہ وفاقی وزیر بنے….دانیال کی اہلیہ محترمہ مہناز عزیز 2018کے الیکشن میں شکرگڑھ کی تاریخ کی سب سے بڑی لیڈ لیکر ن لیگ کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں…..محترمہ وجیہہ قمر مخصوص سیٹ پر پی ٹی آئی کی ایم این اے اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بنیں…جناب طارق انیس وفاقی وزیر اوران کے بھائی جناب کرنل عباس بھی صوبائی پارلیمانی سیکرٹری رہے…..جناب ڈاکٹر طاہر جاوید دو مرتبہ صوبائی وزیر جبکہ ان کے والد گرامی ڈاکٹر نعمت علی جاوید تحصیل اور ضلع ناظم بنے….میاں رشید رکن قومی اسمبلی جبکہ ان کی اہلیہ اور بیٹے نے ایم ایل اے شپ انجوائے کی….پیر سید سعید الحسن شاہ دو مرتبہ صوبائی وزیر بنے….مولانا غیاث الدین اور رانا منان خان نے دس رکن پنجاب اسمبلی رہےچلے مگر نا جانے یہ سب قد آور سیاسی لوگ نارووال شکرگڑھ ٹرین سروس کی بحالی کا کیس کیوں نہیں لڑسکے….؟؟؟شکرگڑھ سے ہمارے صحافی دوست ملک محمد یونس کی 14 جون 2000میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 1927میں قائم ہونے والی نارووال چک امرو ریلوے لائن پر نوے کی دہائی میں ٹرینوں کی لائن لگی ہوتی تھی….پھر نا جانے کیا ہوا کہ ٹرین سروس کی الٹی گنتی شروع ہوگئی….2000کے بعد صرف پانچ سال میں سارے سسٹم کا” ستیا ناس "ہو گیا…..2003تک اس ٹریک پر روزانہ” اکلوتی گاڑی” "ہچکیاں "لیتی تھی جبکہ 2005میں ہفتے میں ایک یعنی” سنڈے ٹرین”رہ گئی…217اپ ،218ڈائون، یہاں چلنے والی آخری ریل گاڑی تھی…..پھر اس کا "بوڑھا انجن” بھی "جواب دے گیا اور یہ ٹریک اجڑ گیا…..رپورٹ کے مطابق 1971کے بعد یہ ٹریک باقاعدہ مرمت نہیں ہوا…..2003کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس ریلوے لائن کو زمین کھا گئی… نارووال سے شکرگڑھ جاتے ہوئے بائیں ہاتھ درختوں کے "جھرمٹ "میں ایک سرسبز” پگڈنڈی” ساتھ ساتھ دوڑتی ہے…..یہ کوئی” سیاحتی زون” نہیں بلکہ وہی تاریخی ریلوے ٹریک ہے جو خود رو جھاڑیوں میں کھو کر رہ گیا ہے…..
2003سے یاد آیا کہ اس زمانے میں یہاں ٹرین” گدھا گاڑی "کی طرح چلتی تھی….یعنی لوگ چلتی ٹرین پر اتر اور چڑھ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریلوے وزیروں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیں تو سعد رفیق سب سے آگے نظر آتے ہیں…..سنا ہے ان کے گذشتہ دور میں نارووال میں بھی سٹیٹ آف دی آرٹ ریلوے سٹیشن بنا مگر افسوس ترقی کا یہ سفر بھی ضلعی ہیڈ کوارٹرز تک ہی محدود ہو کر رہ گیا…….ریلوے ٹریک کے حوالے سے کچھ” سازشی تھیوریاں” بھی ہیں…ان میں سے ایک یہ کہ” ٹرانسپورٹر مافیا "ٹرین بحالی کا سب سے بڑا دشمن ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری…..بہر کیف تاریخی اور نفع بخش ریلوے ٹریک کی طویل ترین بندش حیران کن ہے…..گتھی کہاں الجھی ہے ،یہ گتھی سلجھ ہی نہیں رہی…..میں نے ڈاکٹر نعمت کے” زمانے "میں "ایٹمی سائنسدان” سے اس تباہ حال ٹریک بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا یہ ایک ارب کا مہنگا ترین پراجیکٹ ہے….کوئی اتنے پیسے دینے کو تیار نہیں….ایک دو سال پہلے بھی نارووال چک امرو ریلوے لائن کی فزیبیلٹی رپورٹ کا سنا تھا پھر وہ بھی نا جانے کہاں گم ہو گئی…..ہمارے خیال میں کرتار پور راہداری کے باعث ٹرین سروس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے…….دنیا بھر سے اپنے مقدس مقام پر آنے والے سکھ یاتریوں کو اس سے کافی ریلیف ملے گا…یہاں پہلے سے موجود دربار صاحب سٹیشن اس جگہ اور ریل کے تعلق کو واضح کرتا ہے……..کہتے ہیں لاہور میں آدھا شکرگڑھ آباد ہے …..واقعی اس کا اندازہ عیدین سمیت اسلامی تہواروں پر ہوتا ہے جب لاہور میں ہو کا عالم ہوتا ہے……ٹرین سروس سے جہاں داتا کی نگری میں کام کرنے والے ہزاروں محنت کش سکھ کا سانس لیں گے وہاں لاہور اور نارووال میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوگا……..حالات و واقعات سے تو لگتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہر حال دنیا امید پر قائم ہے۔۔۔۔دیکھتے ہیں نارووال سے چک امرو 52کلو میٹر پر محیط تاریخی ریلوے ٹریک کو کب گرین سگنل ملتا ہے…..کب سیٹی بجتی اور کب شکرگڑھ کے لیے "گڈی” چلتی ہے….؟؟؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button