‘دنیا کو سنہ 1930 کی دہائی کے بعد بدترین مندی کا سامنا’
[ad_1]
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت رواں سال تین فیصد تک سکڑے گی کیونکہ کئی دہائیوں میں پہلی بار دنیا بھر کے ممالک کی معیشت تیزی سے سکڑ رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے اس عالمی مندی کو سنہ 1930 کی دہائی میں آنے والے ’گریٹ ڈپریشن‘ کے بعد نے والا بدترین بحران قرار دیا ہے۔
ادارے نے کہا ہے کہ وبائی مرض نے دنیا کو ‘ایسے بحران سے دو چار کیا ہے جیسا پہلے کبھی نہیں کیا۔’
فنڈ نے مزید کہا کہ اگر وبا کے پھیلاؤ کا عرصہ طویل ہوا تو اس سے حکومتوں اور مرکزی بینکوں کی اس بحران پر قابو پانے کی صلاحیت کا امتحان ہوگا۔
آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ اس بحران سے اگلے دو برسوں میں مجموعی عالمی پیداوار میں نو کھرب ڈالر کی کمی آ سکتی ہے۔
‘گریٹ لاک ڈاؤن’
اگرچہ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ عالمی معاشی آؤٹ لک نے برطانیہ، جرمنی، جاپان اور امریکہ جیسے ممالک میں اس وبا کے خلاف ‘تیز اور بڑے پیمانے پر’ ردعمل کی تعریف کی ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک اس بحران سے نہیں بچ سکے گا۔
یہ بھی پڑھیے
مشرقِ وسطی میں مقیم کتنے پاکستانی بیروزگار ہوئے ہیں؟
کورونا سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ
امریکہ میں سب اچھے کی خبر تھی پھر سب بدل گیا؟
یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اگر سنہ 2020 کے دوسرے نصف میں یہ وبائی مرض کم ہو جاتا ہے تو اگلے سال عالمی سطح پر معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو کر پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد ہو جائے گی۔
گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ آج کے اس ‘گریٹ لاک ڈاؤن’ نے ان پالیسی سازوں کے سامنے ایک ‘ہیبت ناک سچائی’ پیش کی ہے جنھیں اس ‘صدمے کی شدت اور دورانیے کے متعلق شدید غیر یقینی صورت حال’ کا سامنا ہے۔
گیتن گوپی ناتھ نے کہا کہ ’سنہ 2021 میں جزوی طور پر بحالی کا اندازہ ہے لیکن مجموعی پیداوار سابقہ رجحانات سے نیچے ہی رہے گی اور اس کے پھر سے سنبھلنے کے متعلق بہت حد تک غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ترقی کے بہت کم امکانات ہیں اور اگر ہیں بھی تو بہت خراب ہیں۔
عالمی درد
گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ گریٹ ڈپریشن کے بعد پہلی بار ایسی صورت حال دیکھی جا رہی ہے جہاں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں قسم کی معیشتوں کا کساد بازاری کی لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ جدید ترین معیشتوں میں وبا سے پہلے جو ترقی کی بلند ترین رفتار تھی، وہ سنہ 2022 سے پہلے اس پر واپس نہیں جا سکیں گی۔
یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں سال امریکی معیشت کی ترقی میں 5.9 فیصد کی کمی ہوگی جو کہ سنہ 1946 کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی سالانہ گراوٹ ہے۔ اس کے علاوہ رواں سال امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 10.4 فیصد ہوجائے گی۔
سنہ 2021 تک جزوی بحالی متوقع ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں ترقی کی 4.7 فیصد ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب چینی معیشت میں صرف 1.2 فیصد کے اضافے کی امید ہے جو کہ 1976 کے بعد سے ترقی کی سب سے کم شرح ہوگی۔ آسٹریلیا کو سنہ 1991 کے بعد سے پہلی بار کساد بازاری کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف نے متنبہ کیا تھا کہ ‘بدتر نتائج کے شدید خطرات’ ہیں۔
ادارے نے کہا ہے کہ اگر وبائی مرض پر قابو پانے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور سنہ 2021 میں اس کی دوسری لہر آتی ہے تو اس سے عالمی جی ڈی پی میں مزید آٹھ فیصد پوائنٹس کی کمی ہو گی۔
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
فنڈ نے کہا کہ یہ صورت حال قرضوں سے چلنے والی معیشتوں میں مزید سلسلہ وار گراوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔
ادارے کے مطابق سرمایہ کار بعض ممالک کو قرض دینے پر راضی نہیں ہوں گے اور جس کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہو جائے گا۔
معاشی دوا
اگرچہ طویل مدت تک رہنے والے لاک ڈاؤن سے معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ آئے گی تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے اس کے لیے قرنطینہ اور سماجی دوری برقرار رکھنا اہیمت کا حامل ہے۔
اس نے کہا ‘وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کو سست کرنے کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے لیے آگے بڑھ کے اقدامات کیے جانا ضروری ہیں اور ہیلتھ کیئر کے نظام کو مضبوط کرنا ضروری ہے تاکہ مضبوط معاشی سرگرمیاں جلد از جلد بحال کی جا سکیں۔
‘وسیع پیمانے پر وبا کے پھیلاؤ اور سماجی دوری کی عدم موجودگی میں عدم یقین اور خدمات کی کم مانگ سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔’
آئی ایم ایف نے وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے چار ترجیحات طے کی ہیں۔
اس میں صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کے لیے مزید رقم، مزدوروں اور تجارت کے لیے مالی معاونت، مرکزی بینک کی حمایت کو جاری رکھنا اور بازیابی کے واضح منصوبے شامل ہیں۔
ادارے نے دنیا پر زور دیا ہے کہ سب مل کر علاج اور ٹیکے دریافت کریں اور انھیں تقسیم کریں۔
فنڈ نے مزید کہا کہ بہت سارے ترقی پذیر ممالک کو آنے والے مہینوں اور برسوں میں قرضوں میں ریلیف کی ضرورت ہوگی۔
Source link
International Updates by Focus News