مشرق وسطیٰ

کورونا وائرس: ووہان میں ’لاپتہ‘ ہونے والا صحافی دوبارہ منظر عام پر

[ad_1]

چینتصویر کے کاپی رائٹ
LI ZEHUA / YOUTUBE

چینی صحافی جن کو ووہان میں پولیس نے پیچھا کرنے کے بعد حراست میں لے لیا تھا، دو مہینے کے بعد دوبارہ منظر عام پر آ گئے ہیں۔ ووہان چین کا وہی شہر ہے جو کورونا وائرس کی بیماری کا مرکز تھا۔

لی ژیہوا نے 26 فروری کو پولیس کو ان کا پیچھا کرنے اور بعد میں حراست میں لینے کی کارروائی کو براڈکاسٹ کیا تھا لیکن اس کے بعد سے وہ اب تک نظر نہیں آئے تھے۔

بدھ کو جاری کی گئی ایک ویڈیو میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے ووہان میں دو ہفتے ’کوارنٹین‘ میں گزارے اور بعد میں اپنے آبائی شہر میں مزید قرنطینہ میں رہے۔ انھیں کہا گیا تھا کہ قرنطینہ ضروری ہے کیونکہ وہ ’حساس علاقوں‘ میں رہے ہیں۔

لی ژیہوا کون ہیں؟

لی ژیہوا ایک سیٹیزنز جرنلسٹ ہیں جو فروری میں ایک اور صحافی چین کیشی کی گمشدگی کے بعد ووہان گئے تھے۔ انھوں نے ووہان سے اپنی پہلی ویڈیو میں بتایا تھا کہ وہ وہاں کیوں گئے۔

’میرے ووہان میں داخلے سے پہلے مجھے ایک دوست نے جو چین کے مین سٹریم میڈیا میں کام کرتا تھا بتایا کہ۔۔۔۔ چین کی مرکزی حکومت وبا کے متعلق ساری بری خبریں حاصل کر چکی ہے۔

’مقامی میڈیا مریضوں کی بحالی وغیرہ کے متعلق صرف اچھی خبریں رپورٹ کر رہا ہے۔ یقیناً یہ واضح نہیں کہ یہ درست بھی ہے، کیونکہ میں نے اپنے دوستوں سے ایسا ہی سنا ہے۔‘

لی ژیہوا نے جو رپورٹنگ کی ان میں مبینہ طور پر انفیکشنز کو چھپائے جانے اور اور ایک مصروف شمشان گھاٹ کے بارے میں خبریں تھیں۔

ان رپورٹس کو چینی پلیٹ فارموں کے علاوہ یو ٹیوب اور ٹوئٹر پر لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

چین: کورونا وائرس سے متنبہ کرنے والے ڈاکٹر کے اہلخانہ سے معافی طلب

کورونا وائرس سے خبردار کرنے والے ڈاکٹر لِی انتقال کر گئے

وائرس کے خوف میں زندگی، ووہان کی لڑکی کی ڈائری

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

26 فروری کو کیا ہوا؟

اپنی نئی ویڈیو میں لی ژیہوا نے بتایا کہ وہ ووہان میں ڈرائیو کر رہے تھے جب ایک اور کار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے انھیں رکنے کو کہا۔

لیکن رکنے کے بجائے انھوں نے گاڑی تیز کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پریشان تھے اور انھیں ڈر تھا۔ ان کا پیچھا 30 کلو میٹر تک کیا گیا اور سفر کا کچھ حصہ یوٹیوب پر ’ایس او ایس‘ کے عنوان سے بھی اپ لوڈ کیا گیا۔

وہ اپنی رہائش گاہ پر پہنچے اور وہاں سے لائیو سٹریمنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد ’کئی افراد‘ پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کے لباس میں آئے اور قریبی دروازے پر دستک دی۔

لی ژیہوا نے لائٹیں بند کر دیں اور خاموشی سے بیٹھ گئے جبکہ پولیس والے دوسرے دروازے کھٹکھٹانے کے بعد ان کے دروازے پر آئے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن تین گھنٹے کے بعد انھوں نے دوبارہ واپس آ کر دروازے پر دستک دی۔

لی ژیہوا نے دروازہ کھولا اور پھر انھیں پولیس سٹیشن لے جایا گیا، جہاں ان کے فنگر پرنٹس اور خون کے نمونے لیے گئے۔ بعد میں انھیں ایک تفتیشی مرکز میں لے جایا گیا۔

انھیں بتایا گیا کہ ان پر شک ہے کہ انھوں نے امن عامہ میں خلل ڈالا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ اس کا کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔

تاہم کیونکہ وہ وبا کے حساس علاقوں میں گئے ہیں اس لیے ان کو قرنطینہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

لی ژیہوا کو پولیس کے سربراہ وہان میں ایک قرنطینہ کے مرکز لے گئے، جہاں ان سے ان کا الیکٹرانک ساز و سامان لے لیا گیا اور وہ وہ وہاں دو ہفتے رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ وہاں محفوظ تھے اور انھیں چینی ٹی وی پر نیوز دیکھنے کی آزادی تھی۔

تصویر کے کاپی رائٹ
EPA

اس کے بعد انھیں ان کے آبائی شہر میں قرنطینہ کے مرکز لے جایا گیا جہاں وہ مزید دو ہفتے رہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان والوں کے پاس چلے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس سارے عمل کے دوران پولیس نے بہت ہی مہذب طریقے سے قانون نافذ کیا، میرے آرام کے وقت اور خوراک کو یقینی بنایا گیا۔ انھوں نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا۔

’قرنطینہ کے بعد میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہوں۔ اب میں اس سال اپنی ڈویلپمنٹ کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔

’میں ان سب لوگوں کا مشکور ہوں جنھوں نے میرا خیال رکھا۔ میری خواہش ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس وبا کا شکار ہیں صحتیاب ہو جائیں۔ خدا چین کو سلامت رکھے۔ میری خواہش ہے کہ دنیا متحد ہو جائے۔‘

چین کیشی کے دوستوں کی طرف سے بنائے گئے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ گذشتہ 75 دنوں سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

ایک اور صحافی فینگ بن، جو وہان سے رپورٹنگ کر رہے تھے، فروری سے لاپتہ ہیں اور ان کے متعلق بھی کوئی خبر نہیں ہے۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button