مشرق وسطیٰ

چترال میں ہیلپنگ ہینڈ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی اور موحولیاتی تغیر پر ایک روزہ سیمنیار منعقد ہوا

اس سیمینار میں ماحولیاتی ماہر حامد احمد میر نے موسمیاتی تبدیلی کا ماحولیات پر اثرات اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا میں رونما ہوانے والے تبدیلیوں کے بارے میں پریزنٹیشن پیش کی

چترال پاکستان(نمائندہ وایس آف جرمنی): چترال کے ایک مقامی ہوٹل میں ہیلپنگ ہینڈ کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی اور موحولیاتی تغیر پر ایک روزہ سیمنیار منعقد ہوا .
اس سیمینار میں ماحولیاتی ماہر حامد احمد میر نے موسمیاتی تبدیلی کا ماحولیات پر اثرات اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا میں رونما ہوانے والے تبدیلیوں کے بارے میں پریزنٹیشن پیش کی۔ ماہرین نے کہا کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہزاروں کارخانے کاربن ڈای اکسایڈ اور زہریلی گیس حارج کرتی ہے مگر پاکستان میں کارخانے نہایت کم ہیں اور پھر چترال میں کارخانے نہ ہونے کے برابر ہیں مگر اس کے باوجود ان ممالک میں کارخانون سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے چترال جیسے پسماندہ اضلاع بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت کی وجہ سے چترال کے پہاڑوں پر پڑے ہویے صدیورں پرانے گلیشیر پھٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اچانک سیلاب آتے ہیں جو بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ اپنے اس سیارے یعنی دنیا کو عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کیلیے زیادہ سے زیادہ پودے لگایے تاکہ قدرتی افات کی صورت میں نقصان کا شرح کم سے کم ہوسکے
سیمنار کے دوران محتلف شعبوں کے ماہرین نے پینلسٹ کے طور پر گفتگو کی اور شرکاء کے سوالات کا جوابات بھی دیے۔ شرکاء نے گلوف ٹو پراجیکٹ پر اعتراض کیا کہ وہ آٹھ روپے کی حطیر رقم سے چلنے والا ایک ایسا منصوبہ ہے کہ پہاڑوں پر گلیشیر پھٹنے کے نقصانات سے لوگوں کو بچاسکے مگر وہ صرف زبانی جمع خرچ پر پیسہ خرچ کرتی ہے مگر عملی کام نظر نہیں اتا جس پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین عاجز نے کہا کہ یہ ادھا سچ ہے ہمیں گلوف ٹو پراجیکٹ کے تعوان سے حال ہی میں چترال اور سوات ، دیر میں محتلف علاقوں کا دورہ کروایا گیا جہاں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو مزید تباہی سے بچانے کیلیے گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت حفاظتی دیواریں، آبپاشی کی نہریں، کمیونٹی ہال اور ارلی وارننگ سسٹم کی مشنری بھی لگای گی ہے۔
سیمنیار میں بتایا گیا کہ چترال کے لوگ کھانا پکانے اور سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کیلیے اکثر لکڑی جلاتے ہیں جس سے ایک طرف اگر دھواں اٹھتا ہے تو دوسری جانب اس سے جنگلات پر بھی بہت زیادہ بوجھ پرٹا ہے جو ماحولیات پر نہایت منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے لوگوں کو متبادل ایندھن کے طور پر اگر سستی بجلی یا گیس فراہم کی جایے تو جنگلات پر بوجھ کم سے کم ہوگا اور ہم قدرتی آفات کی صورت میں نقصانات سے بھی بچ سکتے ہیں۔ شجاع الحق نے کہا کہ اس سیمنار کا بنیادی مقصد عوام میں اور حاص کر نوجوان طبقے میں اگاہی پھیلانا تھا کہ وہ اپنے ماحول کو کیسے منفی اثرات سے بچاسکتے ہیں۔
نسرین بی بی کا کہنا ہے کہ جب بھی کوی قدرتی آفت آتی ہے تو اس میں بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور حاص کر وہ خواتین جو حاملہ ہو وہ دوڑ بھی نہیں سکتی تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ماحول کو ان منفی اثرات سے بچانے کیلیے کلیدی کردار ادا کرے تاکہ ہم قدرتی افات کی صورت میں نقصانات سے بچ سکے۔ اس سیمنار میں کثیر تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی جو اس دعا کے ساتھ احتتام پذیر ہوی کہ اللہ تعالی وطن عزیز پاکستان کو ہر قسم کے شر اور قدرتی افات سے محفوظ رکھے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button