دامن خالی باتیں بڑی بڑی…….ناصف اعوان
پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو مسلم لیگ نون کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے وہ اس کی قیادت کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی بات کر رہے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے ووٹرز ان کی جھولی میں آن گریں گے
عام انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں ہر کوئی امید کر رہا ہے کہ اب کی بار کچھ نہ کچھ ضرور بہتر ہو گا کیونکہ تیزی سے بڑھتے مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں جن کے خاتمے کے لئے اگر اقدامات نہیں کیے جاتے تو عوام میں مایوسی اور گہری ہوجائے گی جو کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں بڑی محنت کر رہی ہیں ماضی میں اپنے اپنے دوراقتدار میں ہونے والی کارکردگی بارے بھی بتا رہی ہیں علاوہ ازیں باقاعدہ ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کر رہی ہیں۔ پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو مسلم لیگ نون کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے وہ اس کی قیادت کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی بات کر رہے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے ووٹرز ان کی جھولی میں آن گریں گے۔انہوں نے تو پی ٹی آئی کے ووٹروں سے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ چونکہ ان کے قائد‘ وزیر اعظم نہیں بن سکتے لہذا اپنا ووٹ ضائع نہ کریں ۔اسی طرح نون لیگ والے ان پر طعنوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں وہ پی ٹی آئی پر بھی گرج برس رہے ہیں تیکھے نوکیلے اورچبھتے ہوئےجُملے کسے جا رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا کیونکہ وہ دور اب نہیں رہا جب لوگ ان کی باتوں کا اثر لے لیتے تھے اور ان سے بھلے وقت کی امید باندھ لیتے تھے۔اب جب چھہتر برس بیت چکے ہیں انہیں ان کی باتیں سنتے ہوئے جو باتیں ہی رہیں عملی صورت اختیار نہیں کر سکیں لہذا ان کا یہ کہنا درست ہے کہ اب انہیں بیوقوف بنانا یا سمجھنا ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا نے انہیں بہت کچھ بتا اور دکھلا دیا ہے لہذا یہ سب انتخابی نعرے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
بلاشبہ ہماری سیاسی تاریخ میں ایک الجھاؤ ہے واضح کچھ نہیں۔جب بھی کسی نے اقتدار میں آنا ہوتا ہے تو وہ بلند بانگ دعوے کرتا ہے وعدوں کی دیدہ زیب مالا پیش کرتا ہے اور جب کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے اس کے ارد گرد مفاداتی ٹولے جمع ہو جاتے ہیں جو اسے عوام سے دور کر دیتے ہیں اس کو طرح طرح کی پٹیاں پڑھاتے ہیں۔ ذاتی دولت میں اضافے کے گُر بتاتے ہیں اور پھر خود بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں۔اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے لہذا عوام کے اوپر مشکلات کا ایک بہت بڑا پہاڑ پڑا ہوا ہے جسے ہٹانا شاید کسی ایک کے بس میں نہیں مگر اس کا احساس و ادراک ان جماعتوں جو اقتدار کے لئے بیانات کا سہارا لے رہی ہیں کو ہونا چاہیے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے اپنے منشور پیش کر دئیے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں ہو گا مثال کے طور سے بجلی کا تین سو یونٹس تک مفت فراہم کرنا صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی مفت دینا ۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا ‘ ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے ایک انقلاب برپا کرنا ہو گا پر خلوص ہونا ہو گا جو ہمیں آئی ایم ایف سے نجات دلائے گا پھر ہماری معیشت آزاد ہوگی ہم اس کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لئے خود فیصلے کریں گے مگر ہمیں جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں محض اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی قلابازیاں لگا رہی ہیں انہیں عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں یہی وجہ ہے کہ اب دوبڑی جماعتوں کو قدم قدم پر مایوسی کا سامنا ہے عوام کی غالب اکثریت پی ٹی أئی سے جڑ چکی ہے انہیں اس سے کسی نئی سویر کی توقع ہے انہیں اجتماعی شعور نے اپنے فیصلے کرنے کی راہ دکھلا دی ہے اور یہ شعور روز بروز پختہ ہوتا جا رہا ہے جس قدر پی ٹی أئی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں وہ اور نکھر رہی ہے کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب اسے مزید تقویت دینے کے لئے ہے پھر یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ نہیں اس کی مقبولیت کو ہی کم کرنا مقصود ہے کیونکہ یہ جماعت سٹیٹس کو کی مخالف ہے اگرچہ اس نے اپنے دور میں ایسے لوگ بھی شریک سفر کر لئے تھے جو اس نظام کو جوں کا توں رکھنا چاہتے تھے اب وہ بھاگ نکلے ہیں لہذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پی ٹی أئی کارکنوں کی جماعت بن چکی ہے جو تبدیلی چاہتی ہے یہ جو انتخابات ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر وہی ہیں انہیں اپنی جیت کا پورا یقین ہے مگر ان کے راستے میں کچھ رکاوٹیں بھی حائل ہیں کیونکہ جو آئے ہیں وہ یہاں چہل قدمی کے لئے نہیں آئے انہیں کرسی پر بیٹھنا ہے لہذا سیاسی منظر نامے میں اس نظام کو قائم رکھنے والی وہ جماعت نمایاں ہے۔بہر حال ااس نظام کو بدلنا پڑے گا اب عوام کے احساسات ان کی ضروریات اور خواہشات سے انحراف ممکن نہیں اس کی ایک وجہ شعور کا ترقی کر جانا ہے دوسرے ملک کی معیشت کا تباہ ہونا ہے۔اس معیشت کا کھلواڑ
کرنے والے آج ووٹوں کے لئے گھومتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں اورباآواز بلند کہہ رہے ہیں کہ عوام کی حالت بدل دیں گے جب اقتدار میں أئیں گے ۔ ان کی اس سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے قومی خزانے پر بھی ہاتھ ہولا نہیں رکھا کہ اپنی تجوریاں بھر کر باہر لے گئے اب کیسے وہ یہ ثابت کریں گے کہ انہیں اپنے عوام سے محبت ہے ان کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ۔ اب جب عوام کو سب معلوم ہو چکا ہے تو بھی وہ اپنے جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ کیا وہ کیا ۔جناب عالی !اگر آپ لوگوں نے کچھ کیا ہوتا تو آج ہم پیسے پیسے کے لئے پریشان نہ ہورہے ہوتے آئے روز بجلی گیس اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہ بڑھ رہی ہوتیں آئی ایم ایف ہماری معیشت پر اثر انداز نہ ہو رہا ہوتا اور غریبوں کے گھروں میں آہ و بکا مناظر نہ ابھرتے۔
عوام پوچھتے ہیں ان سیاستدانوں سے جو جلسوں کے مجمعے لگا رہے ہیں کہ وہ امیر کیسے بنے اس کا تو حساب دیں مگر وہ نہیں بتائیں گے کیونکہ انہوں نے تو نیب کو ہی بند کرنے کا پروگرام بنالیا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری تو پھر کیسے ان کی باتوں پر کوئی یقین کرے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس کی عملی تصویر بھی ہوگی؟
حقیقت یہی ہے کہ اب ان سیاستدانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے اٹھتا بھی کیوں نہ انہیں جب بھی اقتدار ملا انہوں نے آنکھیں پھیر لیں اور مزے لوٹنے کے بعد چلتے بنے اب ان میں انتقامی جذبات کوٹ کوٹ کر بھر چکے ہیں اور جب کوئی کسی شکنجے میں آتا ہے تو باقی بغلیں بجاتے ہیں ۔ حرف آخر یہ کہ اب سزاؤں کا دور چل رہا ہے کل کسی اور کے لئے ایسا ہو رہا ہوگا اگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ گردش ایام کا سلسلہ تھم جائے تو وہ آپس میں بغلگیر ہو جائیں