انتخابات: سب سے زیادہ پارٹیاں بدلنے والے پاکستان کے سیاست دان
پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے تو وفاداری بدلنے کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ عمل باقاعدہ سیزن کا روپ کسی بھی عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں دھارتا ہے۔
پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے تو وفاداری بدلنے کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ عمل باقاعدہ سیزن کا روپ کسی بھی عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں دھارتا ہے۔موجودہ سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے متعدد سیاستدان اب دوسری پارٹیوں کو سدھار چکے ہیں۔ تاہم اس رپورٹ میں ہم ان چہروں کی بات کریں گے جنہوں نے سب سے زیادہ بار پارٹیاں تبدیل کی ہیں۔اس فہرست میں وہ سیاستدان آتے ہیں جنہوں نے کم از کم تین بار مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی۔سیاسی مبصرین کے مطابق دوسرے درجے کے سیاستدان جو صرف قومی یا صوبائی اسمبلی کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت اس بات کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ ان کو ٹاپ کی ایک دو جماعتوں سے ٹکٹ مل جائے۔بات شروع کرتے ہیں گجرات کے چوہدری پرویز الٰہی سے جن کی پارٹی بدلنے کی رفتار اگرچہ تیز نہیں ہے، تاہم اب وہ چوتھی سیاسی جماعت میں ہیں۔ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد سے 1985 میں اپنی سیاست کا آغاز کیا پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔ پرویز مشرف کےمارشل لا میں بننے والی مسلم لیگ ق کے وہ پنجاب کے صدر رہے اور اب وہ تحریک انصاف کے صدر ہیں۔ اپنی سیاست میں سب سے زیادہ وقت انہوں نے مسلم لیگ ق میں تقریباً دو دہائیاں گزارا۔فواد چوہدری کی اگربات کریں تو ان کا سیاسی سفر مسلم لیگ ق کے ساتھ شروع ہوا پھر وہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں چلے گئے۔ اس کے بعد وہ پیپلزپارٹی میں آئے اور پھر تحریک انصاف کا چہرہ بن گئے۔ استحکام پاکستان پارٹی کی پہلی تقریب میں وہ دکھائی تو دیے تھے تاہم انہوں نے پارٹی کو باقاعدہ طور پر جوائن نہیں کیا نہ اس کا چہرہ بنے۔اسی کیٹیگری میں غلام سرور خان بھی آتے ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز تو پیپلزپارٹی سے کیا پھر وہ مسلم لیگ ق میں چلے گئے جہاں سے انہوں نے تحریک انصاف کا قصد کیا اور اب وہ استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما ہیں۔ اور ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔خیبر پختونخوا سے اگر دیکھا جائے تو پرویز خٹک کا نام سامنے آتا ہے جنہوں نے پیپلزپارٹی سے سیاست شروع کی پھر پیپلزپارٹی شیرپاو میں چلے گئے جہاں سے تحریک انصاف اور اب تحریک انصاف پارلیمنٹیرنینز کا حصہ ہیں۔پنجاب کے شہر خانیوال سے تعلق رکھنے والے 81 سالہ فخر امام بھی ق لیگ، ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف سے ہوتے ہوئے ان انتخابات میں استحکام پاکستان پارٹی پر پڑاو کر رہے ہیں۔ رحیم یار خان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے خسرو بختیار اس مرتبہ الیکشن تو نہیں لڑ رہے، تاہم انہوں نے بھی پیپلزپارٹی، ق لیگ، ن لیگ ، تحریک انصاف کے بعد اب استحکام پارٹی پر تکیہ کیا ہے۔یہ فہرست سابق فوجی صدر جنرل ایوب کے پوتے عمر ایوب خان، جو اس وقت تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری ہیں، کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے 1993 میں اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا۔ پھر وہ ق لیگ میں چلے گئے جہاں سے انہوں نے پاکستان پیپلزمسلم لیگ اور پھر سے 2012 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اب وہ تحریک انصاف میں ہیں۔پاکستان کی قومی اسمبلی کے ریکارڈ کو اگر کھنگالا جائے تو وجود میں آنے والی گذشتہ دو اسمبلیوں کے منتخب اراکین سے متعلق دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی جس کی مدت گذشتہ برس ختم ہوئی تھی۔ اس میں 51 ممبران ایسے تھے جو اپنے سیاسی کیرئیر میں کم از کم دوپارٹیاں تبدیل کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اور ان میں سے دس ممبران وفاقی وزیر رہے۔ پرویز خٹک، نور عالم، عمرایوب، میجر (ریٹائرڈ) طاہر صادق، غلام سرور، فواد چوہدری، عامر سلطان چیمہ، ثنااللہ مستی خیل، غلام بی بی بھروانہ، ریاض فتیانہ، راجہ ریاض، صاحب زادہ محبوب سلطان، سردار طالب نکئی، سید فخر امام، شاہ محمود قریشی، مخدوم خسرو بختیار وغیرہ جیسے نام شامل تھے۔اسی طرح اگر اس سے پہلے 2013 کی اسمبلی کی بات کی جائے تو اس میں 48 اراکین اسمبلی ایسے تھے جو پارٹیاں بدل کر آئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ ق لیگ سے آئے تھے۔ یہ الگ بات ہے وہ گئے بھی اسی جماعت سے تھے۔ ان میں اویس لغاری، زاہد حامد، سکندر بوسن، نثار جٹ، طاہر بشیر چیمہ، ریاض حسین پیرزادہ، صاحبزادہ نذر سلطان، چوہدری خالد وڑائچ، رضا حیات ہراج، جعفر لغاری، مخدوم خسرو بختیار، باسط بخاری وغیرہ شامل تھے۔