حکیم راحت نسیم سوہدروی

ھماری ملی تاریخ کا سنگ میل….. حکیم راحت نسیم سوہدروی

مسلمان اس ازاد مملکت کے ذریعے اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثہ کو فروغ دینے کے علاوہ اس کے ذریعے دنیا کو پھر سے اسلام کے اس افاقی پیغام سے روشناس کرانا چاہتے تھے

23 مارچ کا روز ھماری ملی تاریخ میں سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے -اس روز مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت ال انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال پارک موجودہ مینار پاکستان کے مقام پرقرارداد لاھور کی صورت یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ اب ھندوستان کے سیاسی مسئلہ کا واحد حل برصغیر کو تقسیم کرکے مسلم اکثریتی علاقہ کوشمال مغربی حصہ سے ملا کر الگ مملکت قائم کردی جاے جو ازاداور خود مختار ہو -مسلمان اس ازاد مملکت کے ذریعے اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثہ کو فروغ دینے کے علاوہ اس کے ذریعے دنیا کو پھر سے اسلام کے اس افاقی پیغام سے روشناس کرانا چاہتے تھے جس سے عرب کے صحرا نشین جہاں ارا سے جہاں بان بن گئے اور دنیا جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نورانی فضاؤں سے جگمگا اٹھی -دنیا نے دیکھا کہ اس فیصلہ کے صرف سات سال بعد ہی اسلامیان برصغیر نے اتحادواتفاق کی بدولت قائد اعظم کی قیادت میں مملکت اسلامی پاکستان 14 اگست 1947 کو حاصل کرکے نہ صرف دنیا کا نقشہ بدل دیا بلکہ تاریخ کا دھارا بدل دیا -قوت و اختیار رکھنے والی دواقوام انگریز اور ھندو کو بغیر اسلحہ و فوج کے صرف آئنی وجمہوری ذرائع سے شکست دے کر تاریخ کا نیا باب رقم کردیا -اس سے اندازہ ھو جاتا ھے کہ اگر مقاصد نیک اور منزل واضح ہو قیادت دانا اور مخلص ہو تو قوم اتحاد سے منزل سر کرلیتی ہے
سوال یہ پیدا جاتا ہے کہ تحفظات و مراعات مانگنے والے الگ مملکت کا مطالبہ کیوں کرنے لگے اور الگ وطن کے مطالبہ پر کیسے اصرار کرنے لگے؟ اس کے جواب کے لئے ہمیں ایک طویل اور تاریخی پس منظر نظر آتا ھے جو ایک صدی پر محیط ھے اگر اس کا مطالعہ کیا جاے تو ہر منصف مزاج مسلمانوں کے اس مطالبہ کو جائز قرار دے گامسلمان کوئی گیارہ سو سال قبل برصغیر میں فاتح کی حثیت سے وارد ہوے اور اپنے عہد اقتدار میں رواداری اور روشن خیالی کی شاندار مثالیں قائم کیں -انگریز تجارت کی اڑ میں اے اور مسلمانوں کے باہمی نفاق اور گروہ بندی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قابض ہوگئے جس کی وجہ سے مسلمان غلامی کی تاریک غار میں چلے گئے -1857 کی جنگ آزادی انگریزوں کے شدید مظالم کا ردعمل تھا ہندو اس موقع پر انگریز سے مل گئے اگر چہ مسلمانوں نے اپنے عہد اقتدار میں ان سے بڑا مثالی سلوک کیا تھا مگر اب غلامی کا بدلہ لینے کے لئے انگریز سے مل گئے -انگریز نے بھی ہندوں کا بھرپور ساتھ دیا اور انہیں مضبوط بنایا – مسلمان قوم اپنے اقتدار کو واپس لینا چاھتی تھی ایک طرف انگریز تھے تو دوسری طرف ہندو مضبوط اکثریتی قوم تھی- طویل غلامی نے ھندوں کے فکرونظر میں فساد برپا کردیا تھا وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے تھے ان حالات میں سرسید احمدخان اگے بڑھے اور علی مسلم یونیورسٹی تحریک سے مسلم قومیت کا چراغ روشن کیا اور مسلمانوں کو ان کی الگ حثیت کا احساس دلایا- تعلیمی و معاشی میدان میں پیش رفت کی ان کی حکمت عملی کامیاب رھی کیوں کہ اسی تحریک سے مسلم لیگ معرض وجود میں ائ – سرسید احمد خان وہ عظیم راہنما تھے جہنوں نے کھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ھیں جلد ہا بدیر مسلمانوں کی الگ مملکت ضروری ہے دونوں اقوام اکٹھی نھیں رہ سکتیں-اسی دور میں ملک میں سیاسی زندگی کے نئے دور کا آغاز ھوا – مسلم لیگ کا قیام ، اردو ھندی جھگڑے، تقسیم بنگال اور 1909 کی اصلاحات اس دور کے واقعات ھیں مسلمانوں کی ہر ممکن کوشش اور خواہش کے باوجود ہندو مل کر انگریز سے آزادی کی بجاے اکثریت کی بنا پر خود کو انگریز کا جانشین خیال کرتے تھے- 1857 کی جنگ آزادی کے بعد تحریک خلافت اور عدم تعاون میں قربانی کی جو مثالیں قائم کیں اس کی بنا پر ھی انگریزی اقتدار کی چولیں ڈھیلی پڑ گئیں -مسلمان ہر ممکن کوشاں رہے کہ ھر دواقوام مل کر ازادی کی جنگ لڑیں -قائد اعظم کے چودہ نکات ، میثا ق لکھنو، اور لارڈ ولنگنڈن کے خلاف مظاہرہ اس کی واضح مثالیں ھیں یہ سب اس اقلیتی قوم کی طرف سے تھا جو انگریز سے آزادی چاھتی تھی مگر جواب میں اکثریتی ہندو قوم نے مسلمانوں کی متاع عظیم تاجدار مدنیہ کی شان میں گستاحیاں کیں اس کے باوجود مسلمان راہنماوں نے آزادی کے مقصد کے حصول کے لئے انہیں انفرادی کوششیں قرار دے کر صرف نظر کیا -بعض رہنماوں نے اس مسلسل اذیت سے نجات کے لئے الگ وطن کے منصوبے پیش کئے – مگر سب سے اہم تجویز دسمبر1928 میں آلہ اباد کے مقام پر علامہ اقبال نے پیش کی اس وقت اسے شاعرانہ تخیل قرار دیا گیا اور قوم نے توجہ نہ دی -1935 کے ایکٹ کے تحت پہلے عام صوبائ انتحابات میں جب کامیابی کے بعد کانگریس نے سات صوبائ وزارتیں قائم کیں تو ہندو کی ذہنیت واضح ھو گئ ھندو ھندی اور رام راج کے پروگرام پر عملدرآمد شروع کیا اور مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا انھی دنوں پنڈت نہرو نے طاقت کے نشہ میں اعلان کیا کہ ھندوستان میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک انگریز اور ایک کانگریس- جس پر قائد اعظم نے دو ٹوک جواب دیا کہ دو نھیں تیسری طاقت مسلمان بھی ہیں – انگریز اس وقت جنگ عظیم میں الجھا ھوا تھا جس کا کانگریس نے فائدہ اٹھانا چاھا اور عدم تعاون کی دھمکی دی جس پر قائد اعظم نے کہا کہ کوئ آئینی ڈھانچہ ہر دو اقوام کی رضامندی کے بغیر ممکن نھیں ہے- کانگریس کی بلیک میلنگ ناکام ہو گئ پیرپور کمیٹی کی رپورٹ آنے پر کانگریسی حکومتیں ختم کر دی گئیں جس پر مسلم لیگ نے یوم نجات منایا – اب مسلم لیگ عوامی تنظیم بن چکی تھی اور الگ مملکت کے قیام پر غوروخوص شروع ھو گیا قائد اعظم نے ان دنوں ٹائم اینڈ ٹائیڈ میں مضمون لکھا جس میں حالات پر روشنی ڈالی اور الگ وطن کے مطالبہ پر غور کا ذکر کیا – یہ تھے وہ حالات جن میں ال انڈیا مسلم لیگ کے 22 تا 24 مارچ 1940 کو اقبال پارک لاھور میں اجلاس عام کا اعلان ھوا – یہ اجلاس اپنے پروگرام کے مطابق ہوا اگر چہ اجلاس سے تین روز قبل خاکساروں پر گولیاں چلنے کا افسوس ناک واقعہ ہوا مگر قائد اعظم کے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق جلسہ ہوا قائد 22 مارچ کو بمبئ سے بذریعہ ٹرین تشریف لائے اور جلوس منسوخ کرکے سیدھا خاکساروں کی تیماداری کے لئے گئے اور اخبارنویسوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ اجلاس نئ تاریخ رقم کرے گا 21 مارچ کی سہ پھر قائد نے پنڈال میں رسم پرچم کشائی کی 22مارچ کو لیگ کی کونسل کا اجلاس ھوا اور قرارداد لاہور کا مسودہ موضوعات کمیٹی کے سپرد ھوا جس نے ضروری ترامیم کے بعد حتمی شکل دی 23 مارچ کو اجلاس عام ھوا مسلمانوں برصغیر کا جم غفیر تھا میاں بشیر احمد نے نظم پڑھی شاہ نواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا پھر قائد نے سو منٹ انگلش میں خطاب کیا مگر جلسہ ھمہ تن گوش تھا اس کے بعد اے کے فضل حق نے قرارداد پیش کی مولانا ظفر علی خان نے اردو میں ترجمہ کیا تمام صوبوں کے نمائندوں نے تائیدی خطاب کیا شام ھونے کے باعث اجلاس اگلے روز کے لئے ملتوی ہوگیا چنانچہ 24 مارچ کو قرارداد منظور ہوگئ جسے تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے شھرت ہوئ مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی منظوری پر کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان معرض وجود میں آگیا ہے اور میں اس کی ازاد فضاؤں میں سانس لے رہا ہوں جس پر قائد اعظم نے کہا کہ مولانا اپ نے تو پاکستان قائم کردیا ھے-
قرارداد کی منظوری کے بعد مسلمان قوم میں جوش ولولہ پیدا ہوگیا کیوں کہ اب منزل واضح تھی قوم نے علامہ اقبال کا راستہ اپنا لیا تھا ھندو پریس اس کے خلاف سرگرم ہوگیا اور اسے گاوماتا کی تقسیم سے تشبیہ دینے لگا اس قرارداد کو ناکام بنانے کے لئے ھر حربہ استعمال ہوا مگر یہ مسلمانوں کے دلوں کی آواز بن گئ تھی اور مسلمان لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ھو چکے تھے پھر دنیا نے دیکھا کہ 1946 کے انتحابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے نتائج کے اعتبار سے لیگ مسلمانوں کی نمائیندہ جماعت قرار پائی اور قرارداد کی منظوری کے سات سال بعد 14 اگست کو پاکستان قائم ھوگیا ہندو نے قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہ کیا اور اسے ختم کرنے کی مسلسل سعی جاری رکھی 1948 ،1965،اور 1971 کی جنگیں اسی کا واضح ثبوت ھیں المیہ مشرقی پاکستان اور مسئلہ کشمیر ہندو کے عزائم کا واضح ثبوت ہیں پاکستان جسے ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا مگر افسوس کہ یہاں اسلام کو نعرہ کے طور پر استعمال کیاگیا ھم نے قیام پاکستان کے بعد اس کے مقاصد کے مخالف سمت سفر شروع کردیا جس کی سزا بھی بھگت چکے ہیں مگر ابھی بھی سبق نھیں لیا 23 مارچ یوم عہد ھے یوم احتساب ہے کہ ہم نے جن مقاصد کے لئے یہ وطن حاصل کیا تھا ہم نے اس جانب کس قدر سفر کیا ہے ۔؟ اج کے روز ھر شحص اپنا محاسن کرے کہ اس نے مملکت کی تعمیر و استحکام کے لئے اپنی ذمہ داریاں کس قدر پوری کی ھیں اج کے روز ہر شحص جس شعبہ سے تعلق رکھتا ھے عہد کرے کہ وہ پاکستان کے استحکام کے لئے اپنا فرض ادا کرے گا

مزید دکھائیں
Back to top button