سُچل سنگتی اُجلا زمین زادہ….حیدر جاوید سید
" مرشد مونجھ بہت ہے اور باتیں بھی، عید پر ملتان توآئو گے ہی دو بھائیوں کی وفات کے بعد پہلی عید ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ اپنی امڑی کی قبر پر حاضری دینے لازمی آئو گے۔ بس واپس لاہور جانے کی بجائے رحیم یارخان آجانا"
دس پندرہ دن قبل اس نے وائٹس ایپ میسج بھیجا اور تقاضا کیا کہ عیدالفطر کے بعد لازمی رحیم یار خان آئوں چند دن اکٹھے گزاریں گے اور دوستوں کو بھی بلالیں گے۔ کچھ دیر بعد دوسرا میسج موصول ہوا۔
” مرشد مونجھ بہت ہے اور باتیں بھی، عید پر ملتان توآئو گے ہی دو بھائیوں کی وفات کے بعد پہلی عید ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ اپنی امڑی کی قبر پر حاضری دینے لازمی آئو گے۔ بس واپس لاہور جانے کی بجائے رحیم یارخان آجانا”
ان دو پیغامات کے اگلے دن اس نے ترپ کا پتہ پھینکا۔ میسج میں لکھا،
"مرشد ایک تو تمہاری آمد پر میں لالہ اقبال بلوچ کو بلالوں گا دوسرا ہم اکٹھے مبارک لائبریری چلیں گے۔ مرشد سید انیس شاہ جیلانیؒ کے فرزندوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی” ۔ یہ ترپ کا پتہ کام دیکھاگیا۔ میں نے اسے جوابی پیغام بھیجنے کی بجائے ٹیلیفون کیا اور کہا یار حسن خان ٹھیک ہوگیا میں ملتان سے واپس لاہور جانے کی بجائے رحیم یار خان آجائوں گا ایک شرط ہے۔ وہ کیا اس نے پوچھا۔ میں نے کہا تم مجھے خانپوربھی لے جائو گے ۔ منظور ہے اس نے کہا چند مزید جملوں کا تبادلہ ہوا دعائوں کے ساتھ فون بند کردیا۔
جمعرات 28 مارچ کی صبح نیٹ آن کیا تو اس کے برادر عزیز مولانا عمار نذیر بلوچ کی پوسٹ میں حسن معاویہ خان گوپانگ ایڈووکیٹ کے سانحہ ارتحال کی دکھ بھری خبر نے ہلاکر رکھ دیا۔ کچھ دیر میں خود کو سنبھال کر عمار سے ٹیلیفون پر بات کی تو عمار جیسا باحوصلہ نوجوان دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ پھر بولا مرشد ’’تہاڈا یار ساکوں چھوڑتے چلا گئے، اللہ دے کم ہن تساں میڈی مکانڑ قبول کرو‘‘۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے سے تعزیت کی۔ اور کیا کرتے یہی رسم دنیا ہے۔
یہ 1990ء کی دہائی ابتدائی برس تھے جب ایک دن مشرق لاہور کے ایڈریس سے مجھے اس کا خط موصول ہوا۔ اس خط کے موصول ہونے سے چند دن قبل مشرق میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ پر لکھا میرا کالم شائع ہوا تھا۔ یہ کالم اصل میں لاہور میں گوئیٹے انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ تقریب میں پڑھا تھا۔ اگلے دو تین برس اس سے خطوط کے ذریعے رابطہ رہا پھر موبائل فون آگئے تو رابطے میں سہولت ہوگئی۔
وہ جب بھی خط لکھتا یا فون کرتا میری کسی تحریر یا نئی کتاب پر ڈھیروں باتیں کرتا۔ یاد پڑھتا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد شائع ہونے والی میری کتاب ’’دہشت گرد یا انقلابی؟‘‘ پر اس نے چھ سات صفحات پر مشتمل طویل خط لکھا۔ ’’قیدی کے خطوط‘‘ شائع ہوئی تو اس نے کہا یار پیر اس کتاب پر بیٹھ کر بات کریں گے، پھر ’’پورا سچ‘‘ کی اشاعت پر بولا، مرشد تم صوفیاء کے حافظ ہو، میں نے اسے بتایا کہ ’’ڈان‘‘ میں محمد علی صدیقی صاحب نے ’’پورا سچ‘‘ پر اپنے تبصرےمیں طالب علم بارے یہی جملہ لکھا ہے۔ بولا دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔
یہ وہ ماہ و سال تھے جب میں پشاور میں روزی روٹی کے لئے مقیم تھا اس دوران میں اپنی امڑی حضور کی قدم بوسی کے لئے ملتان جاتا تو وہ زحمت کرکے ملنے کے لئے ملتان آجاتا ہم دونوں لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم کے سرائیکی ادب والے دفتر میں گھنٹوں مجلس کرتے اور خوب باتیں ہوتیں۔
ہمارے مشترکہ دوست اور سرائیکی قوم پرست و دانشور ارشاد احمد امین کی کوششوں سے رواں صدی کے اوائل میں ملتان میں چالیس سیاسی و ادبی اور سماجی تنظیموں پر مشتمل "سرائیکی قومی رابطہ کمیٹی” کا قیام عمل میں آیا تو حسن معاویہ خان رحیم یار خان کا ضلعی کوآرڈی نیٹر نامزد ہوا ، (صوفی تاج محمد گوپانگ ایڈووکیٹ مرحوم اس رابطہ کمیٹی کے چیف آرگنائزر یہ تحریر نویس سیکرٹری جنرل اور ارشاد امین مرحوم رابطہ سیکرٹری منتخب ہوئے تھے ) ۔
اس کے والد مرحوم مولانا نذیر بلوچ دیوبندی مکتب فکر کے عالم دین تھے ایک خاص فہم کے مذہبی گھرانے کا پس منظر رکھنے والا آزاد خیالی کے راستوں پر کیسے چل نکلا۔ یہ تعصب سے اٹے سماج میں کچھ کچھ حیران کردینے والی بات ہے لیکن مطالعہ وہ واحد چیز ہے جو روایات اور خاندانی عقیدوں کے بت توڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
بلاشبہ اپنے ہم عصروں میں اس کا مطالعہ زیادہ بہتر اور وسیع تھا مکالمے کا بھی رسیا تھا اس کی باتوں اور فہم پر لوگوں کو حیرانی بھی ہوتی تھی۔ دیہی سماج میں ایک دیوبندی عالم دین کا بیٹا روایتی عقیدوں کی زنجیریں توڑدے تو یہ جان جوکھم میں ڈالنے والی بات ہے مگر وہ ایسا ہی تھا ترقی پسند سوچ کا حامل اور یاروں کا یار۔
گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں پر پھیلے تعلق میں ہم درجنوں بار ملے رحیم یار خان، ملتان، بہاولپور، فاضل پور اور ڈیرہ غازی خان میں (ڈی جی خان میں سنگت کا مرکز مرحوم دوست سردار اکبر خان ملکانی کا ڈیرہ ہوتا تھا) ہم نے چند برس سرائیکی قومی تحریک میں بھی اکٹھے کام کیا۔
نیشنل سرائیکی پارٹی بنی تو وہ اس کا نائب صدر منتخب ہوا۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل سوجھل دھرتی واس کی تحریک پر بننے والے سیاسی اتحاد سرائیکستان گرینڈ الائنس (ایس جی اے) میں بھی وہ نائب صدر منتخب ہوا۔ رحیم یارخان کی معروف ادبی تنظیم بزم فرید کا صدر بھی رہا۔
ایک بار ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یار خان کا خازن بھی منتخب ہوا۔ اس معرکہ میں وہ شاندار انداز سے جیتا اس کی تحریک پر ہی رحیم یار خان بار کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلی بار یوم حسینؑ منایا گیا۔ اس پر بہت سارے لوگ حیران بھی ہوئے مگر اس نے پروا نہیں کی وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اس کے چیمبر میں مقدموں اورسائلوں سے زیاہ دوستوں کے ڈیرے ہوتے، چائے کے دور چلتے رہتے۔
بڑا شاندار انسان سُچل دوست اور اجلا زمین زادہ تھا اپنی دھرتی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کا عاشق صادق۔
پچھلے برس میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یار خان میں منعقدہ یوم حسینؑ میں شرکت کے لئے گیا تو اس سے ملاقات نہ ہوسکی وہ ایک دن قبل اپنے برادر عزیز عمار نذیر بلوچ کے ہمراہ عمرے کے لئے سعودی عرب روانہ ہوچکا تھا۔ اس کا پیغام موصول ہوا ’’یار مرشد میکوں یوم حسینؑ دے پروگرام بارے پتہ ہووے ہاں تاں اپنڑے پروگرام وچ تبدیلی کرگھتا ہاں‘‘۔
اس میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں۔ خامی بس ایک تھی ناراض جتنی جلدی ہوتا مان بھی اتنی جلدی ہی جاتا تھا۔ کتابوں، مطالعے اور مکالمے سے اسے عشق تھا۔ نئی کتاب پڑھتا تو ٹیلیفون پر اس کے بارے میں تفصیل سے بات کرتا۔ اکثر کہا کرتا تھا۔ مرشد ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں حیدر شاہ سے تیری یاری کیسے قائم ہے۔ یہ پوچھنے والے دونوں کے نام اور عقیدوں کو سامنے رکھ کر سوال کرتے تھے۔ وہ ہنس کر جواب دیتا ’’مرشد کا کمال ہے مجھے برداشت کئے ہوئے ہے‘‘۔
مجھے اس کے نام سے کبھی مسئلہ رہا نہ پشتینی عقیدے سے جس سے وہ باغی تھا۔ ترقی پسند سوچ اور وسیع مطالعے نے اسے پشتینی عقیدے سے باغی تو بنادیا لیکن اسے ’’اپھارا‘‘ نہیں ہوا یہی اعلیٰ ظرفی ہے ورنہ یہاں دوچار صفحات پڑھے ہوئوں کو بھی بدہضمی ہوجاتی ہے۔
یارِ من حسن معاویہ خان ایڈووکیٹ کے سفر حیات کے دلچسپ واقعات ہیں میں اکثر اسے کہتا تھا ’’یار خان تم اپنی آپ بیتی لکھو اگلی نسلوں کے کام آئے گی‘‘۔ جواباً کہتا ’’مرشد مرنے کے بعد مجھے اپنے گائوں میں ہی دفن ہونا ہے تم کیا چاہتے ہو کہ لوگ میری قبر اکھاڑ دیں؟‘‘
ایک شکوہ اس سے آخری سانس تک مجھے رہے گا وہ یہ کہ عیدالفطر کے بعد ملنے کا پروگرام فائنل کرکے 17 رمضان المبارک کو وہ دنیا سرائے سے رخصت ہوگیا۔
ایک اکل کھرے سُچل سنگتی کے اس طور اچانک رخصت ہوجانے کا دکھ بیان سے باہر ہے۔ اپنی زندگی اس نے اپنی مرضی سے بسر کی اپنے برادر عزیز عمار نذیر بلوچ سے اسے خصوصی قلبی لگائو تھا بھائی بھائیوں کو پیارے ہوتے ہیں مگر عمار خصوصی پیارا تھا۔
اچھے اور بھرپور انداز میں سفر حیات طے کرکے 17 رمضان المبارک کی شام سے قبل وہ منوں مٹی کی چادر اوڑھ کے سوگیا۔ زندگی کا انت یہی ہے۔ حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے ایک مردِ آزاد تھا جو اب نہیں رہا۔