کیچ پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی): بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں نامعلوم افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا ہے۔ صوبے میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ ان واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 18 افراد مارے گئے۔
جمعرات کی صبح واقعہ کے پیش آنے کے بعد بلوچستان حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ بے گناہ مزدوروں کا قتل کھلی دہشت گردی ہے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے کہا ہے کہ واقعہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ’رپورٹ طلب کر لی ہے، دہشت گردوں سے سختی سے نمٹیں گے۔‘
حکام کے مطابق واقعہ گوادر سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ساحلی علاقے سربندن میں جمعرات کی علی الصبح پیش آیا۔
ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ساتوں افراد سربندن میں حجام کا کام کرتے تھے اور رات کو ایک رہائشی کوارٹر میں سوئے ہوئے تھے جب نامعلوم افراد نے انہیں فائرنگ کر کے قتل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مقتولین کا تعلق پنجاب کے شہر خانیوال سے ہے جن کی میتیں گوادر کے سرکاری ہسپتال پہنچا دی گئی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق شواہد اکٹھے کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ نہتے اور بے گناہ مزدوروں کا قتل بزدلانہ اقدام ہے، ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
’انتظامی افسران جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں، ضلعی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں، شہید مزدوروں کے خاندانوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔‘
سربندن گوادر سے بلوچستان اسمبلی کے منتخب رکن حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کا آبائی علاقہ ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ واقعہ رات تین بجے کے قریب پیش آیا۔ اس حملے میں ایک مزدور زخمی بھی ہوا ہے جسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کو پتہ تھا کہ پنجابی مزدور اس رہائشی کوارٹر میں رہ رہے ہیں لیکن سربندن میں اس سے پہلے اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا شاید اس لیے سکیورٹی کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔
مولانا ہدایت الرحمان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بے گناہ اور نہتے مزدوروں کا قتل کیا گیا اس کی کوئی قانون، شریعت اور نہ ہی روایات اجازت دیتی ہیں۔
یہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مکران ڈویژن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کا دوسرا اور بلوچستان میں تیسرا واقعہ ہے۔
اس سے پہلے 28 اپریل کو گوادر سے ملحقہ مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں تعمیراتی کام کرنے والے فیصل آباد کے دو مزدوروں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
12 اپریل کو عید کے تیسرے دن نوشکی میں کوئٹہ سے ایران جاتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں کو بس سے اتار کر قتل کردیا گیا تھا- اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
گوادر میں بھی اس سے پہلے غیر مقامی افراد کو نشانہ بنانے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں- اپریل 2019 میں گوادر سے کراچی جاتے ہوئے کوسٹل ہائی وے پر مسافر بس سے کوسٹ گارڈ اہلکاروں سمیت 14 غیرمقامی افراد کو اتار کر قتل کیا گیا۔
اسی طرح 2017 میں گوادر میں ایئرپورٹ روڈ پر ہوٹل میں کھانا کھانے میں مصروف سندھ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا گیا اس واقعہ میں 20 افراد زخمی ہوئے۔
مئی 2017 میں گوادر کے علاقے پشکان اور گنت میں تعمیراتی کام کرنے ولے سندھ کے 10 مزدوروں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
بلوچستان میں غیر مقامی افراد کو لسانی بنیادوں پر قتل کرنے کے زیادہ تر واقعات میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی یا کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ ملوث رہی ہے۔