اداریہ

’ٹرمپ کے جیتنے پر اُتار چڑھاؤ‘….سید عاطف ندیم

آپ کو یاد ہوگا کہ ایک طرف انھوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں شدید الفاظ کا چناؤ کیا اور دوسری جانب عمران خان کا دورہ ہوا جہاں ٹرمپ نے گرم جوشی دکھائی

جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر اور یونائیلاڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کے سینیئر مشیر ڈین مارکی کہتے ہیں کہ اس تناظر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کی پاکستان پالیسی کیا ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور میں ہم نے نسبتاً غیر متوقع پالیسی فیصلے دیکھے۔
’آپ کو یاد ہوگا کہ ایک طرف انھوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں شدید الفاظ کا چناؤ کیا اور دوسری جانب عمران خان کا دورہ ہوا جہاں ٹرمپ نے گرم جوشی دکھائی۔ تو ٹرمپ 2.0 میں یہ رشتہ کیسا رہے گا، کہنا ذرا مشکل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کی نظر سے دیکھیں تو میرے خیال میں انھیں اس رشتے میں قدرے اتار چڑھاؤ کے لیے تیار ہونا چاہیے جن کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ اگر کملا ہیرس اقتدار سنبھالتی ہیں تو یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ ہمیں بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کا تسلسل نظر آئے گا۔
ان کے مطابق مگر یہاں ایک چیز اہم ہے۔ چاہے یہ غلط ہے یا صحیح حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں امریکہ انڈیا کے تعلقات اور افغانستان کی صورتحال کا اہم کردار ہوتا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں بائیڈن دور کافی خراب رہا اور ممکن ہے کہ ہیرس اس سے مختلف پالیسی اپنائیں گی۔
’اب (امریکی فوج کے) انخلا کو کئی سال ہو چکے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہاں پر پالیسی کچھ تبدیل کی جائے جس کے پاکستان پر اثرات ہو سکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ امریکہ کو بایئڈن دور کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ روابط میں اضافہ کرنا پڑے۔ اسی طرح انڈیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ممکن ہے کہ ہیرس بائیڈن پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھیں مگر کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا کو بہت زیادہ توجہ یا اہمیت دی ہے، شاید ہیرس اس میں تھوڑی کمی کریں اور انڈیا کو وہ اہمیت نہ ملے جو صدر بائیڈن کے دور میں ملی تھی۔ اس لیے شاید امریکہ کی جنوبی ایشیا کی پالیسی میں کچھ ایڈجسمنٹ ہو۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button