مشرق وسطیٰ

پاک افغان سرحدی علاقے ارندو میں اپنے حقوق کیلئے پر امن جلسہ۔

ہم آج بھی پتھر کے زمانے کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں, عمائدین علاقہ

چترال پاکستان(گل حماد فاروقی) پاک افغان سرحد پر واقع نہایت دور آفتادہ اور پسماندہ علاقہ ارندو میں علاقے کے عوم نے اپنے حقوق کیلئے ایک پر جلسہ کیا جس کی صدارت ویلیج کونسل ارندو کی ناظم عبد المجید نے کی۔اس جلسہ میں تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی بغیر کسی سیاسی وابستگی کے شرکت کی جن کا ایک پواینٹ ایجنڈا تھا کہ ارندو کے عوام کے ساتھ انصاف کیا جائے اور ان کو بھی ترقی دی جائے۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ یونین کونسل ارندو جو 25000 آبادی پر مشتمل ہے جس میں پانچ ویلیج کونسل ہیں۔ یہاں سات قومیت کے لوگ رہتے ہیں مگر یہاں کے لوگ اب بھی پتھر کے زمانے کی دور کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقررین نے کہا کہ ارندو افغانستان کے سرحد پر واقع پاکستان کا آحری حطہ ہے۔ اس وادی پر افغانستان کی جانب سے کبھی تو روس کے فوجیوں نے بمباری کی تو کبھی امریکی فورس نے۔ا نہوں نے کہا کہ اس بستی میں روس کے جنگی جہازوں نے بھی بمباری کی جس میں کئی لوگ شہید ہوئے اور متعدد مکانات مسمار ہوئے اور اس وادی کے لوگوں نے چترال کو بچانے کیلئے ایک فرنٹ لائن فورس اور مورچے کی کردار اد کی ہے۔
مقررین نے کہا کہ ارندو کے سڑک پر کچھ عرصہ قبل تعمیر کا کام شروع ہوا تھا مگر اسے ادھورا چھوڑ اگیا اور اب بھی 32 کلومیٹر سڑک کچا ہے۔مقررین نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان صرف ایک دریا واقع ہے اور دریا کے دونوں جانب یعنی دونوں ملکوں میں ایک ہی قومیت کے لوگ رہتے ہیں ماضی میں یہاں کے لوگوں نے سرحد کے اس پر رشتے کئے اور کروائے بھی اور صدیوں سے دونوں ممالک کے لوگ آپس میں بھائی چارے کی زندگی گزار رہے ہیں مگر آج کل ہم ایک دوسرے سے نہین مل سکتے۔
مقررین نے کہا کہ اس وادی میں سرحد پار سے بھی مریض علاج معالجے کی عرض سے آیا کرتے تھے مگر یہاں ایک بنیادی مرکز صحت کو سال 2009 میں اپ گریڈ کرکے اسے RHC یعنی دیہی مرکز صحت کا درجہ دیا گیا ہے مگر یہاں پچھلے دو سالوں سے ڈاکٹر نہیں آیا۔ مقررین نے کہا کہ ڈاکٹر کا تعلق نیچے اضلاع سے ہے اور وہ دو ماہ بعد آکراپنی تمام حاضری لگاکر واپس چلاجاتا ہے جبکہ اس آر ایچ سی میں صرف ایک مقامی میڈیکل ٹیکنیشن شیر غنی ولد محراب گل مریضوں کا معائنہ سے لیکر پورے ہسپتال کو چلاتا ہے۔اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اآفیسر ڈاکٹر فیاض رومی کو بار بار کال کرکے ان کو پیغام بھی بھیجا کہ وہ اپنا موقف دے کہ ڈاکٹر کیوں دو ماہ بعد آکر اپنا سارا حاضری لگا کر واپس چلا جاتا ہے مگر انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم اس کے دفتر فون کرکے معلوم ہوا کہ پشاور گئے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی ڈی ایچ او ڈاکٹر ضیاء اللہ خان نے بتایا کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے وہاں دو ڈاکٹر تعینات ہیں جو پندرہ پندرہ دن کیلئے باری باری ڈیوٹی کرتے ہیں مگر گزشتہ روز ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر فیاض کا بیٹا بیمار ہوا اور اسے اچانک جانا پڑا اس وجہ سے ہسپتال حالی تھا۔
مقررین نے کہاکہ ارندو کے ہائی سکول میں بھی اساتذہ کی تعداد نہایت کم ہے جبکہ ہائیر سیکنڈری سکول کئی عرصے سے بند پڑا ہے اور اس میں نہ تو کوئی استاد ہے اور نہ کوئی طالب علم۔اس سکول کی عمارت سے یہاں کے طلباء کو کوئی فائدہ نہیں اور فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کے طلبا و طالبات ہائی سکول کی عمارت میں پڑھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محمود غزنوی سے رابطہ کیا گیا تو وہ کسی سرکاری کام سے پشاور گئے تھے جبکہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر شاہد حسین نے کہا کہ ارندو کے ہائی سکول میں صرف 244 طلباء ہیں جن کیلئے پندرہ اساتذہ ہیں۔ ہائیر سیکنڈری سکول کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہاں صرف 34 طلباء ہیں جو ہائی سکول میں پڑھتے ہیں اور ہائیر سیکنڈری پورشن میں 9 اسامیاں حالی ہیں جن کو صرف سیکرٹری ایجوکیشن پر کرسکتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ پورے ارندو میں نہ تو کوئی موبائل فون ہے نہ انٹرنیٹ اور اس جدید دور میں بھی جہاں طلباء آن لائن تعلیم حاصل کرتے ہیں یہاں کے طلباء انٹرنیٹ جیسے بنیادی ضرورت اور سہولت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ارندو کے اس پار افغانستان میں باقاعدہ موبائل فون کا ٹاؤر لگا ہوا اور یہاں رہنے والے نہ صرف عوام بلکہ سرکاری ملازمین بھی افغانستان کا موبائل فون والا سم ستعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کی آمدنی افغانستان کو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دیگر علاقوں میں لوگ اور حاص کر طلبا و طالبات انٹرنیٹ سے بہت فائدہ حاصل کررہے ہیں کیونکہ دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے مگر ہمارے طلباء کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ارندو سے آگے چترال میں کیا ہورہا ہے تو ان کو بیرونی دنیا یا پاکستان کے دیگر حصوں کے بارے میں کیسے معلوم ہوگا۔مقررین نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجننیرنگ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ PHE نے کروڑوں روپے کا غبن کرکے پینے کی پانی کی سکیم تو لائے مگر سب کے سب ناکام ہوئے۔ انہوں نے ایک پانی کا ٹینکی کا تذکرہ کیا جو دنیا شائد اٹھواں عجوبہ ہوگا۔ وہ ٹینکی پانی کیلئے بنایا گیا تھا جس کیلئے سابق صوبائی وزیر سلیم خان چترالی نے فنڈ فراہم کیا تھا مگر اس ٹینکی کے اندر سے پانی کا پائیپ گزارا گیا ہے اور وہ پانی بجائے اسکے کہ پہلے ٹینکی میں جمع ہوکر اس سے پائپ کے ذریعے عوام تک پہنچایا جاتا مگر ایسا نہیں ہے صرف دکھاوے کیلئے پانی کا ٹینکی بنایا گیا ہے اور پانی کا پائپ اس ٹینکی کے بیچ میں سے سیدھا باہر نکالا گیا ہے اور یہ ٹینک بالکل حالی پڑی ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کے ایگزیکٹیو انجنیر ارشد اقبال سے رابطہ کرکے ان سے پوچھا گیا کہ اس ٹینکی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی ضرورت کیا تھی جب اس میں پانی نہیں ڈالا جاتا ہے یا جمع کیا جاتا ہے اور پائپ لائن اس کے اندر سے سیدھا باہر گزارا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بابت پوچھ گچھ کریں گے۔ مقررین نے اس موقع پر پاک فوج کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ارندو میں ایک چلڈرن پارک تعمیر کروایا ہے اور لوگوں سے دیگر کاموں میں بھی تعاون کرتے رہتے ہیں۔
مقررین نے محکمہ جنگلات پر بھی تنقید کی کہ وہاں میرٹ پر بھرتی نہیں ہوتے حالانکہ ارندو ایک جنگلاتی علاقہ ہے اور جب تک محکمہ جنگلات میں یہاں کے مقامی لوگ جو حقدار ہو وہ بھرتی نہ ہو تو جنگل کی حفاظت کرنا مشکل ہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ لیویز، فارسٹ اور دیگر محکموں میں اس پسماندہ علاقے کا باقاعدہ کوٹہ منظور کیا جائے کیونکہ یہاں تعلیم کا معیار نہایت کمزور ہے اور یہاں کے امیدوار دیگر علاقوں کے امیدواروں کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔اس موقع پر چند نوجوانوں نے بینرز اٹھائے تھے جن پر درج تھا کہ ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔
جلسہ سے وی سی ناظم عبد المجید،حاجی غلام یوسف انسپکٹر ریٹائرڈ، ملا ادینہ شاہ ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر،قاری علی اکبر، مولانا سمیع الحق، گل زادہ، حضرت علی، شیرین محمد وغیرہ نے اظہار حیال کیا۔مقررین نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ ارندو کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اور اب مزید اسکے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک نہ کیا ئے یہاں تعلیم، صحت، مواصلات اور دیگر سہولیات فراہم کی جائے اور ان لوگوں کو احجتاج کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ جلسہ پر امن طور پر منتشر ہوا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button